ارکان پنجاب اسمبلی کا نادر شاہی استحقاق

379

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ارکان پنجاب اسمبلی استحقاق بل 2021ء کو آئین سے متصادم قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور پنجاب اسمبلی کے متفقہ طور پر منظور کردہ اس بل پر دستخط کر کے اسے قانون کی حیثیت دینے کے بجائے اعتراضات کے ساتھ اسپیکر چودھری پرویز الٰہی کو واپس بھیج دیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ بل عام طور پر ایک دوسرے کو بدعنوان، لوٹے، لٹیرے بلکہ غدار تک کے الزامات اور القابات سے نواز کر گردن زدنی قرار دینے والی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے مل کر پیش کیا تھااور ایوان کے اتحاد و اتفاق کے اظہار کے لیے چاروں بڑی جماعتوں حکمران تحریک انصاف، اس کی اتحادی مسلم لیگ (ق)، حکومت کی سب سے بڑی نقاد حزب اختلاف کی مسلم لیگ (ن) اور عوامی حقوق و جمہوریت کی چیمپئن پیپلز پارٹی کے ایک ایک رکن نے اس پر دستخط کر کے بل پر ایوان کے علامتی طور پر اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہوئے بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے اسمبلی نے کسی بحث مباحثہ اور غور و فکر کی زحمت کئے بغیر فوری طور پر کسی ایک بھی رکن کے اختلاف کے بغیر متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا اس بل کے ذریعے پنجاب اسمبلی کے ارکان کو ہر طرح کی تنقید و تنقیص سے بالا تر ٹھہرا دیا گیا تھا اور اسمبلی کے اسپیکر اور استحقاق کمیٹی کے چیئرمین کو بے پناہ اختیارات سے نوازا گیا تھا، انہیں عدالتی اختیارات تفویض کرتے ہوئے کسی رکن اسمبلی کے استحقاق کو مجروح کرنے کے ملزم بیورو کریسی کے ارکان اور سرکاری ملازمین کو طلب کرنے اور قید و جرمانہ کی سزا سنانے کا اختیار دیا گیا تھا بل میں اسپیکر کو یہ نادر شاہی اختیار بھی سونپا گیا تھا کہ وہ حسب ضرورت اس میں شامل شقوں کو معطل یا فعال قرار دے سکتے ہیں، اسی بل میں کسی رکن اسمبلی کی بدعنوانی، لاقانونیت یا کسی بھی طرح اس کے خلاف خبر شائع کرنے والے اخبار نویس کو بھی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی میں طلب کر کے لاکھوں روپے جرمانہ اور مہینوں قید کی سزا دے کر جیل بھیجا جا سکتا تھا بیورو کریسی تو سرکاری ملازمت کے سبب بہت سی حدود و قیود کی پابند تھی اس لیے اس جانب سے اس قانون کے خلاف کھل کر رد عمل سامنے نہیں آیا تاہم اپنے طریق کار کے مطابق تحفظات کا اظہار ادر سے بھی کر دیا گیا البتہ اخبار نویس برادری نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ فوری طور پر تمام صحافتی تنظیمات، پریس کلب اور پریس گیلری کمیٹی پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان پر مشتمل ’’ایکشن کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی جس نے اس قانون کو آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے منافی اور کسی بھی صورت ناقابل قبول اور ناقابل عمل قرار دے کر مکمل طور پر مسترد کر دیا اور اس کی منسوخی کے لیے احتجاجی مظاہروں اور اسمبلی کی کارروائی کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ ابتدائی مظاہروں کے بعد ہی اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے اسی قانون کے تحت اسپیکر کو دیئے گئے اختیارات کے تحت صحافیوں سے متعلق دفعات کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا تاہم صحافی برادری نے اسے ناکافی قرار دے کر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنا احتجاج اور اسمبلی کا بائیکا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسپیکر نے اس فیصلہ کے بعد ’’ایکشن کمیٹی‘‘ کے ارکان سے مذاکرات کئے اور اسمبلی اجلاس کے پہلے ہی روز ترامیم پیش کر کے آزادی صحافت پر اثر انداز ہونے والی دفعات کالعدم قرار دے دیں۔ یوں اخبار نویس برادری تو مطمئن ہو گئی مگر بیورو کریسی پر اس قانون کی تلوار بہرحال اب بھی
لٹک رہی تھی، چنانچہ ممکن ہے اس کی طرف سے خاموشی سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا گیا ہو اور اپنے تحفظات وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تک پہنچائے گئے ہوں، چنانچہ اطلاعات یہی ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے ایوانوں کی طرف سے بھی اس قانون پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور گورنر نے وزیر اعظم کی ہدایت ہی پر یہ بل پنجاب اسمبلی کو واپس بھیجا ہے اور اعتراض لگایا ہے کہ بل کے تحت اسپیکر اور استحقاق کمیٹی کو دیئے گئے اختیارات آئین کی دفعات 3-66 اور -10 اے سے متصادم ہیں، بل میں تجویز کی گئی سزائیں بھی آئین سے مطابقت نہیں رکھتیں اس لیے آئین کی دفعات آٹھ، دس، دس اے اور 25 کے تحت بل کا از سر نو جائزہ لیا جانا ضروری ہے، گورنر کے اعتراضات اسپیکر پنجاب اسمبلی کو موصول ہو گئے ہیں جنہوں نے اپنے ماہرین قانون سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے، دیکھنا ہو گا کہ اب ہمارے معزز ارکان اسمبلی کیا راستہ اختیار کرتے ہیں، اپنے ’’استحقاق‘‘ پر اصرار کرتے ہوئے دوبارہ اس بل کی موجودہ صورت ہی منظوری دیتے ہیں یا اس میں معقولیت پیدا کرنے پر آمادگی کا اظاہار کرتے ہیں، پہلی صورت میں یہ بل گورنر کے دستخط نہ کرنے کی صورت میں بھی قانون کا درجہ حاصل کر سکتا ہے تاہم توقع کی جانی چاہئے کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان اپنے اس نادر شاہی استحقاق پر بضد نہیں ہوں گے کیونکہ پہلے ہی جس طرح یہ بل منظور کیا گیا اس سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ان کی خاصی جگ ہنسائی ہو چکی ہے، یوں بھی دوسرا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت عظمیٰ اس قانون کو کالعدم قراردے سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ گورنر نے نشاندہی کی ہے، یہ قانون آئین کی دفعات کے صریحاً خلاف ہے۔