شاہ محمود کا مشورہ اور عمل

282

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان بحران کے حوالے سے مشورہ دیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان مل کر مسئلے کا حل نکالیں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان بے جا مداخلت اور جبری قبضے کا قائل نہیں۔ امن عمل میں رخنہ پیدا کرنے والی قوتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کا مشورہ درست ہے اور پاکستان کو اس رائے اور فیصلے پر سختی سے قائم رہنا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ 20 برس افغانستان پر امریکا کے جبری قبضے کا ساتھ پاکستان نے دیا اور شاہ محمود قریشی ایسی تمام حکومتوں میں شامل رہے۔ اگر اس پالیسی سے رجوع کر لیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بات طالبان کے تناظر میں کہی جا رہی ہے۔ اب اگر طالبان جبری قابض لوگوں کو ہٹانا چاہیں تو اس کے دو ہی راستے ہیں مذاکرات یا جبر کا جواب جبر۔ افغان انتظامیہ مذاکرات کرنے اور راستہ چھوڑنے پر تیار نہیں تو پھر مجبوراً جبر ہی کرنا پڑے گا۔ امریکا نے بھی تو افغانستان، عراق اور دنیا کے دیگر ممالک میں امن کے قیام کے لیے جبری مداخلت کی تھی۔۔۔ لہٰذا طالبان جبر کے جواب میں جبر کرتے ہوئے ہرات شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔ لیکن بھارت کو کس نے اختیار دیا کہ افغانستان میں اپنے طیارے استعمال کرے؟ یہی قوت امن عمل میں رخنہ پیدا کر رہی ہے اس پر نظر رکھیںلیکن شاہ محمود بھارت کے ہر اقدام پر اسے دنیا کا مسئلہ قرار دے کر جان چھڑاتے ہیں لہٰذا کشمیر کا مسئلہ بھی دنیا کا مسئلہ قرار دے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ بھی بزور شمشیر ہی حل ہو گا جس طرح افغان مسئلہ حل ہو رہا ہے۔پاکستان کے خلاف بھارت ہر طرح کی سازش کرتا ہے کشمیر کے مسئلے کو دنیا کا مسئلہ کیسے کہا جا سکتا ہے ۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک پاکستان سے صاف کہہ چکے ہیں کہ معاملے کو آپس میں حل کریں اور آپس میں اب مذاکرات نہیں ہو سکتے ۔ شاہ محمود قریشی صاحب کشمیر کے حوالے سے بھی کوئی واضح لائحہ عمل اختیار کریں ۔