کیا اسلام آباد مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟

318

واشنگٹن: قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ بے گھر افغانیوں کو پاکستان میں دھکیلنے کے بجائے ان کے ملک کے اندر رکھنے کے انتظامات کیے جائیں۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی سفارت خانے میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف نے کہاہےکہ پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ افغانستان میں کشیدگی مزید خونریزی کا باعث نہ بنے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کے اندر ایک محفوظ علاقہ بنائے۔

کیا اسلام آباد مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ انہیں در با در (بے گھر) کیوں بنایا گیا ہے؟ ان کے لیے ان کے ملک کے اندر انتظام کریں، پاکستان مزید مہاجرین کو برادشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

معید یوسف نے تحریک انصاف حکومت کی امریکی پالیسی کو حقیقت پسندی اور اور غیر معذرت خواہانہ لیکن گھمنڈ پر مبنی رویہ قرار نہیں دیا، انہوں نے زور دیا کہ وہ بڑی تصاویر اور سرخیاں پر توجہ نہ دیں۔

یاد رہے  معید یوسف 27 جولائی کو انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل فیض حمید کے ساتھ افغانستان اور دوطرفہ تعلقات پر اپنے امریکی ہم منصبوں سے ملاقات کےلیے واشنگٹن پہنچے تھے۔

دوسری جانب آئی ایس آئی کے سربراہ وائٹ ہاؤس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ساتھ مذاکرات کے ایک دن بعد واشنگٹن سے روانہ ہوئے گئے تھے جس میں دونوں اطراف کے دیگر سیکورٹی حکام بھی شریک تھے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ کی امریکی آمد سے متعلق معید یوسف نے کہا کہ ہمیں براہ راست تکنیکی ‘ان پٹ’ کی ضرورت تھی، یہ ایک اعلیٰ سطح کا سیاسی دورہ نہیں تھا اور اس میں تکنیکی مسائل پر توجہ دی گئی ہے۔

پاک امریکہ تعلقات کی تعمیر نو کا عمل 27 مئی کو جنیوا میں معید یوسف اور ان کے امریکی ہم منصب کے درمیان ملاقات کے ساتھ شروع ہوا تھا ، معید یوسف نے کہا کہ بات چیت تعلقات کی تعمیر نو کی طرف جاری رہے گی لیکن آپ کو وہی احساس نہ ہو جو آپ نے بڑی ملاقاتوں، بڑی تصویروں اور سرخیوں کے ماضی میں کیا تھا، یہ مذاکرات اب نتیجہ پر مبنی ہوں گے۔

انہوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا کہ پاکستان کا اثر و رسوخ ہے کہ وہ افغان طالبان کو وہ کرنے پر مجبور کرے جو وہ نہیں چاہتے تھے۔

معید یوسف نے کہا کہ ہمارے پاس معمولی، کم لیوریج ہے، لیکن اگر اثر و رسوخ ہوتا تو ہم انہیں 1990 کی دہائی میں بامیان بدھ کو تباہ کرنے سے روک دیتے، انہیں کم از کم ٹی ٹی پی کو زبردستی نکالنے پر آمادہ کر سکتے تھے۔

پاکستان پر امریکی دباؤ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی پریشانیاں غیر ضروری ہیں، اگر تنقید جائز ہے، ہاں، لیکن پاکستان کے پاس بچے فوجی ہیں؟ کیا یہ منطقی ہے؟

انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارتی وزیر خارجہ نے بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پر اثر انداز ہونے کا اعتراف کیا، ہم ان مسائل کو اٹھاتے اور ان پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور یہ ایک جاری رہنے والا عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یقینا افغانستان سب سے اہم اور فوری مسئلہ ہے لیکن یہ بات چیت اس بات پر مرکوز ہے کہ کئی مسائل پر کیسے آگے بڑھا جائے، رواں ہفتے کے اجلاس دراصل عمل کا جائزہ لینے کے لیے تسلسل ہے۔

معید یوسف نے تسلیم کیا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آئے ہیں لیکن ہمیں آگے کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں آگے بڑھنے کے حوالے سے بہت مثبت جواب ملا ہے۔