تحقیق: کوروناوائرس سے متاثر مریض ذیابیطس کا شکار بھی ہوسکتے ہیں

415

لندن: کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد بڑی مشکل میں پڑ سکتے ہیں کیونکہ محققین کا کہنا ہےکہ متعدد مریض کورونا کے بعد ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ بڑھ سکتا ہے،  امپرئیل کالج لندن کے محققین نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کووڈ 19 بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا باعث بن سکتی ہے۔

طبی میگزین نیچر میٹابولزم میں شائع نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہنے والے 551 کووڈ مریضوں میں سے 46 فیصد کا بلڈ شوگر لیول بڑھ گیا ہے، جو ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ مریضوں میں کوویڈ سے صحتیابی کے بعد بھی کم از کم 2 ماہ تک برقرار رہا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ کورونا وائرس سے متحرک ہونے والے ذیابیطس کے مرض کا بہترین علاج کیا ہے، مگر ماہرین نے خبردار کیاہےکہ کووڈ کے باعث ہمیں شاید ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کو دیکھنا پڑے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی 2 اقسام عام ہیں، جن میں سے ٹائپ ون ایک آٹوامیون مرض ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض کا جسم غلطی سے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو مریض کے طرز زندگی سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ جسمانی وزن یا سست طرز زندگی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔

ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں یہ پہلے ہی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان میں کورونا وائرس سے بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کووڈ اس خاموش قاتل مرض کا شکار بھی بناسکتا ہے۔

کووڈ19 کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کو سمجھنے کے لیے بوسٹن چلڈرنز کے ماہرین نے اٹلی کے شہر میلان کے ایک اسپتال میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران زیر علاج رہنے والے 551 مریضوں کا جائزہ لیا اور ان مریضوں میں ایک بلڈ شوگر سنسر اسپتال میں داخلے کے وقت نصب کیا گیا تھا اور اس کے ڈیٹا کا جائزہ 6 ماہ تک لیا گیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان مریضوں میں سے کوئی بھی ہسپتال میں داخلے سے پہلے سے ذیابیطس کا شکار نہیں تھا اور ہم نے 46 فیصد مریضوں میں نئے ہائپر گلیسیما کو دریافت کیا ہے۔

ہائپر گلیسمیا ہائی بلڈ شوگر لیول کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے، وقت کے ساتھ اس کے نتیجے میں مریضوں کی آنکھوں، اعصاب، گردوں یا خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق جن مریضوں کو کووڈ کے باعث ہائی بلڈ شوگر کا سامنا ہوا ان کو دیگر مریضوں کے مقابلے میں ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، ان کی علامات زیادہ سنگین تھیں اور انہیں آکسیجن، وینٹی لیشن اور آئی سی یو نگہداشت کی بھی زیادہ ضرورت پڑی۔

محققین کے مطابق حیران کن طور پر ان افراد میں انسولین کی بہت زیادہ مقدار بننے لگی تھی جبکہ بلڈ شوگر لیول کی سطح کم کرنے والے خلیات کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر لبلبے کے ہارمونز میں آنے والی خرابیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے باعث انہیں ان مسائل کا سامنا ہوا اور صحتیابی کے لیے بھی زیادہ وقت لگا۔

کورونا وائرس کی یچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز کی بھرمار ہوجاتی ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔

اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورم کا باعث بننے والے مدافعتی پروٹیشنز کو بلاک کرنے سے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے، تاہم دیگر مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور ہر بار کھانے کے بعد ان مریضوں کے جسم میں گلوکوز کی سطح میں غیرمعموی اضافہ ہوجاتا۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرنے والا مرض ہے جو کہ طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

ان مریضوں کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے یہ تاحال کسی اسرار سے کم نہیں، کیونکہ انسولین کو مسلسل بلاک کرنے سے دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے نقصان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حواے سے زیادہ بڑی تحقیق کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کروڑوں افراد کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی دنیا بھر میں جاری ہے، جس سے ذیابیطس کے شکار آبادی میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔

یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ کووڈ ذیابیطس کا باعث کیوں بن سکتا ہے، مگر ایک ممکنہ وضاحت لبلبے میں ایس 2 ریسیپٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہونا ہے، جس کو کورونا وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعتمال کرتا ہے۔

اسی طرح کورونا وائرس کے مریضوں میں مدافعتی نظام کے باعث متحرک ہونے والا ورم بھی لبلبلے کو نقصان پہنچا کستا ہے جس سے اس کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔