امریکی منافقت کی انتہا

281

بھارت کے دورے پر آئے ہوئے امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا ہے کہ ’’مودی حکومت جمہوریت کو کمزور کرنے سے باز رہے۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ نے سول سوسائٹی پر بھی زور دیا کہ ’’انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے مودی حکومت پر دبائو ڈالا جائے کیونکہ بین الاقوامی آزادیوں کو درپیش عالمی خطرات کے دور میں ہمیں جمہوری تنزل کا سامنا ہے‘‘۔ جہاں تک بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تعلق ہے یہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، کشمیر پر غاصبانہ قبضہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مکمل رو گردانی اور پھر پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے ذریعے مقبوضبہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ اور ظالمانہ اقدام کے بعد کشمیر میں فوجی محاصرے کو دو سال مکمل ہو رہے ہیں کون سا ظلم اور ستم ہے جو بھارتی فوج نے اس دوران معصوم، بے گناہ اور نہتے کشمیری باشندوں پر نہیں توڑا، گھر گھر تلاشیوں، عزت مآب خواتین کی عصمت دری، نوجوانوں کی عقوبت خانوں میں منتقلی اور ان پر بے پناہ تشدد، قابض فوج کے ہاتھوں آئے دن بے گناہ نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا، حریت قیادت کے رہنمائوں کو قید و بند میں اذیتوں سے دو چار کرنے سمیت ہر طرح کا ستم اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ مقبوضہ علاقے میں روا رکھا جا رہا ہے۔ بھارت کے اندرونی علاقوں میں بھی مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر آر ایس ایس کے انتہا پسندوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے ان کے جان و مال محفوظ ہیں نہ ، ان کی عبادت گاہیں، جبراً تبدیلی مذہب بھی بھارت میں روز مرہ کا معمول ہے۔ اقلیتیں تو ایک طرف خود ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ’’دلت‘‘ بھی انسان تصور نہیں کئے جاتے، ان کے ساتھ جس طرح انسانیت سے گرا ہوا سلوک کیا جاتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی ان کھلی اور وسیع پیمانے پر کی جانے والی خلاف ورزیوں سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد عالمی تنظیموں کی رپورٹیں آئے دن منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے ایوان بالا و زیریں کی مختلف کمیٹیاں بارہا بھارت میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹیں جاری کر کے اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کمیٹیوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کے خلاف عالمی سطح پر مختلف پابندیوں اور اقدامات کی سفارش بھی کی ہے مگر امریکی حکومت کی جانب سے آج تک ان پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آ سکی۔ اب امریکہ کے وزیر خارجہ نے بھی جس زور دار انداز میں اس کا تذکرہ اور نشاندہی کی ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سب کچھ محض زبانی کلامی تنبیہات تک محدود رکھنے کی بجائے امریکی حکومت انسانی حقوق کے عالمی منشور پر بھارت میں عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے بھارت کی مودی حکومت کے خلاف بھی اسی طرح کے عملی اقدامات اور پابندیوں کا اعلان کرتی جس طرح کی پابندیوں کا ایران،ترکی اور پاکستان جیسے ممالک کو معمولی معمولی باتوں پر سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اسے امریکا کی منافقت اور دو عملی کے سواکیا نام دیا جائے کہ جس بھارت کے متعلق امریکی وزیر خارجہ ایک روز قبل انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کے الزام عائد کر رہے تھے انسانی حقوق کے قاتل اسی بھارت کے ساتھ امریکہ محبت کی پینگیں بڑھاتا ہوا دیکھا جا سکتا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز بھارتی وزیر خارجہ سبرامئم جے شنکر سے ملاقات کی جس کے دوران دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید گہرا اور کثیر الجہتی سیکیورٹی کے حوالے سے وسیع تر کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا جب کہ انڈوپیسفک چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف اور افغانستان میں تعاون کے سلسلے میں علاقائی محاذ کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ امریکی وزیر نے کورونا کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ویکسین کے لیے اشتراک وبائی بیماری ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انٹونی بلنکن نے بھارتی وزیر خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کچھ ایسے تعلقات ہیں جو امریکا اور بھارت کے مابین زیادہ اہم ہیں، ہم دنیا کی دو اہم جمہوریتیں ہیں اور ہمارا تنوع ہماری قومی طاقت کو تقویت بخشتا ہے۔ امریکا نے بھارت کے ساتھ مل کر چین کو خطے میں الگ تھلک کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کیا اور دونوں ممالک نے متعدد معاہدوں پر دستخط کر کے قومی اور دفاعی تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔ بٹنگن نے کہا کہ انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا اور افغانستان کے استحکام میں ہندوستان کی شراکت کو اہم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تنازعات کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اگر طالبان طاقت کے ذریعہ اقتدار سنبھالتے ہیں تو یہ ملک ایک مختلف ریاست کی شکل اختیار کر جائے گا۔ہم ملک سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغان عوام کی کامیابیوں کو برقرار اور علاقائی استحکام کی حمایت کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کی خواہش ہے کہ دنیا ایک خود مختار، آزاد، جمہوری اور مستحکم افغانستان کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن سے رہتے ہوئے دیکھنے کی خواہشمند ہے اور خبردار کیا کہ افغانستان کی آزادی اور خود مختاری صرف مہلک بیرونی اثرات سے محفوظ رہ کر ہی ممکن ہے۔امریکہ کے قول و فعل میں تضاد کی اس سے نمایاں مثال کیا ہو گی کہ ایک جانب وہ بھارت کے وزیر اعظم مودی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر متنبہ کر رہا ہے اور دوسری جانب اسی بھارت کو افغانستان میں امن، آزادی اور خود مختاری کی خاطر تھانیدار کا کردار سونپ رہا ہے۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں تنازعات کا کوئی فوجی حل نہیں اور دوسری طرف بھارت کے ذریعے افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو اسلحہ کی فراہمی کا اہتمام کر کے جنگ کے شعلوں کو ہوا دی جا رہی ہے، امریکہ اگر واقعی خطے میںامن کا خواہاں ہے تو اسے دو عملی پر مبنی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ امریکہ اگر واقعی انسانی حقوق کی پاسداری میں سنجیدہ ہے تو اسے بھارت کو محض دکھاوے کے بیانات کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر انتباہ سے آگے بڑھ کر اسی طرح کی ٹھوس اور موثر پابندیاں اس کے خلاف بھی عائد کرنا ہوں گی جس طرح کی پابندیاں بھارت کے بے بنیاد پروپیگنڈہ کی اساس پر پاکستان کے خلاف عائد کی جاتی رہتی ہیں۔جس کی ایک حالیہ مثال پاکستان کو بلا جواز FATF کی گرے لسٹ میں رکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ وہ عالمی دبائو کے سبب اس لسٹ سے نکلنے کے لیے کم و بیش سوفیصد شرائط پوری کر چکا ہے اور اب تو بھارتی وزیر بھی گزشتہ دنوں کھلے بندوں یہ اعتراف کرتے پائے گئے ہیں کہ پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں اور اسے گرے لسٹ میں رکھا جانا بھارت کی پاکستان مخالف لابنگ اور سفارتی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے۔