طالبان کی فتح: اسباب و عوامل

412

گزشتہ دو ماہ سے امریکی اخبارات میں افغانستان کی خبریں بہت تفصیل سے آ رہی ہیں۔ جس میں کچھ خوف کا عنصر شامل ہے لیکن طالبان کے دعوؤں سے انکار نہیں کیا جا رہا ہے۔ مثلاً طالبان کا یہ دعویٰ کہ اس نے 85 فی صد سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، رد نہیں کیا گیا ہے۔ طالبان کا افغانستان سے ملنے والے تینوں بین الاقوامی سرحد یعنی پاکستان، ایران، اور ترکمانستان پر قبضہ ہوچکا ہے۔ اور ان سرحدوں سے ہونے والی تجارت پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ یہاں اس کھلی اور واضح حقیقت کا بھی پورا ادراک پایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت چند دن یا چند ماہ کی مہمان ہے۔
امریکا میں تمام حلقوں میں یہ بات یقین سے کہی جارہی ہے اور ساری دنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ طالبان فاتح ہیں اور کابل میں اگلی حکومت ان ہی کی آنے والی ہے۔ اور یہ کہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ طالبان کی حکومت شرکت غیرے بن جائے۔ حالانکہ تحریک طالبان کے ترجمان دوحہ، قطر میں مقیم سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ’’ ہم اقتدارکی اجارہ داری پریقین نہیںرکھتے ہیںکیونکہ ماضی میںافغانستان میںاقتدارپراجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیںکامیاب حکومتیںنہیںتھیں۔‘‘تاہم اس بیان کا مطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ تحریک طالبان کا مْطیع الامریکا کسی قیادت یا گروہ سے کوئی شراکت کا معاہدہ ہونے جا رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف صف آراء مجاہدین تنظیموں مثلاً حزب اسلامی اور اس کی قیادت گلبدین حکمت یاروغیرہ سے بات چیت اور شرکت اقتدار ہو۔ کیونکہ امریکا کے خلاف جہاد میں بھی حزب اسلامی شامل رہی ہے۔
تحریک طالبان کی نصرت کے اسباب و عوامل پر غور کرنے سے پہلے مسبِبْ الاسباب اللہ سبحان تعالیٰ کی ذات اور صفات، اورا س کی حکمت پر غور کرنا پڑے گا۔ وہ اگر چاہے تو ’’کن ‘‘کہے اور آناً فاناً سب کچھ ہو جائے،لیکن وہ اس دنیا میں کامیابی اور شکست کے لییاسباب کو ضروری قراد دیتا ہے۔ اور جو اللہ کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جس ظالم قوم کو اللہ تباہ کرنا چاہتا ہے وہ اس کے اسباب پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ فرعون کو بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ( موسیٰ) کے ظہور کا یقین تھا، اسی لیے اس قوم میں پید ا ہونے والے ہر بیٹے کو قتل کرا دیتا تھا۔ لیکن جب موسیٰ ؑ پید ا ہوئے تو ان کی ماں نے بچے کو اس طرح دریا کے حوالے کیا اور اس یقین کے ساتھ کیا کہ کہیں نہ کہیں فرعون کے اقتدار میں یہ بچہ لنگر انداز ہوگا۔ اس طرح موسیٰؑ فرعون کے گھر میں پہنچ گئے۔ اور وہیں پل کر جوان ہوئے۔ جب اللہ نے موسیٰ ؑسے کہا کہ ’’فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے، اور اس سے کہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تو (اس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو۔‘‘ (النّٰزعات17-19 )۔ اس وقت موسیٰ ؑ کو خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ اس پیغام کو لے کر فرعون کے پاس جانے کا مطلب کیا تھا، اور اس کے نتائج کیا ہونے تھے۔ موسیٰ ؑ نیا پنے بھائی ہارونؑ کی سنگت کی التجا کی جو قبول ہوئی۔ موسیٰؑ اس وقت تک اپنے وقت کے ایک ظالم ترین حکمراں کے سامنے اللہ کی حاکمیت کی دعوت پیش کرنے کے لیے تیار تھے۔ گو کہ اس سے نرم لہجہ میں بات کرنے کے لیے کہا گیا تھا (سورہ طٰہٰ آیت 44)۔ لیکن انجام کا خوب پتہ تھا۔ تاہم حجت تمام ہونی بھی ضروری تھی۔
اس وقت فرعونِ امریکا کی حمایت میں پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ تھا جب افغان طالبان (طلبا ) پاکستانی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ طالبان کو دو سال فوجی تربیت دی گئی، امریکی اسلحہ فراہم کیا گیا، تاکہ وہ ا ٓسانی سے کابل پر قبضہ کر لیں۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے آہستہ آہستہ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ جس وقت امریکا، 52 ممالک انٹرنیشنل سیکوریٹی اسسٹنٹ فورس (ISAF) کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوتا ہے، اس وقت تک طالبان حکومت کاافغانستان کے 98 فی صد علاقوں پر قبضہ ہو چکا تھا۔ زیادہ تر علاقے بغیر کسی مزاحمت کے ہی طالبان کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ طالبان نے ان سے قرآن اٹھا کر عہد کیا تھا کہ ہم اس کے مطابق فیصلے کریں گے، آپ اسلحہ رکھ دیں۔ مقابل قوتوں نے اسلحہ رکھ دیا، اور طالبان نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
اپنے دور حکومت میں (1996تا2001) میں طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ؛ ۱۔ آبادی کو غیر مسلح کیا ( تاریخ میں پہلی بار) ۲۔ شریعت نافذ کی جس کی وجہ سے سوسائٹی میں جرائم کا خاتمہ ہوا،ا ور مکمل امن قائم ہو گیا۔ ۳۔ انصاف کا قیام عمل میں آیا۔ ۴۔ افغانستان میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی لگی اور سختی کے ساتھ اسے روک دیا گیا۔ اس طرح افیون کی لعنت سے نہ صرف افغانستان بلکہ باہر کی دنیا کو بھی نجات ملی۔ افغانستان کے افیون کے عالمی تجارت میں مشہور بین الاقوامی خفیہ ایجنسیاں شامل تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افیون کی کاشت اور کاروبار پر پابندی کی وجہ سے بھی یہ ایجنسیاں طالبان سے نالاں تھیں۔
حکومت طالبان اسلامی نظام حیات کے ساتھ تھی۔ اور عالمی طاقتیں اور ایجنسییاں اسلام دشمنی میں ، اور اسلام کی سیاسی قوت کو ابھرنے سے روکنے کے لیے متحدتھیں۔ اس مد میں وہ اربوں ڈاکرزڈالرز خرچ کر رہی ہیں۔ چنانچہ جب مغربی طاقتیں طالبان سے ناامید ہو کر ان سے دشمنی پر آگئیں، تو پراپگنڈہ کے توپ کا دہانہ کھل گیا۔ مغربی میڈیا کے علاوہ مسلم ممالک کے تمام مین اسٹریم میڈیا کو بھاری فنڈنگ کر کے خرید لیا گیا۔ جو رات دن طالبان کو دہشت گرد گروہ ثابت کرنے میں لگے رہے۔ انھیں تعلیم اور عورت کا مخالف بتایا گیا کیونکہ انھیں اشوز پر عالمی عوامی غصہ پیدا کیا جا سکتا تھا۔ حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔
بامیان میں نصب گوتم بدھ کے دو مجسموں کو,اسلامی امارت افغانستان (حکومت طالبان ) کے امیر المومنین ملا عمر کے حکم پر مارچ 2001میں مسمار کیا گیا۔واضح رہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل قامت مجسمہ تھا۔ ان دو مجسموں میں سے ایک کی اونچائی 175 فٹ تھی جب کہ دوسرے کی 120 فٹ۔ ان دونوں مجسموں کو منہدم کرنے کے فیصلہ کا جب طالبان کی طرف سے اعلان ہوا ( 27 فروری2001) تو پوری دنیا طالبان حکومت کی مخالف ہو گئی۔ حتیٰ کہ جن تین ممالک جس سے ان کے سفارتی تعلقات تھے یعنی پاکستان، سعودی عربیہ، اور متحدہ عرب امارات وہ بھی ان کے مخالف ہو گئے۔ جی ہاں سعودی عربیہ بھی جسے کٹر وہابی، توحیدی ریاست مانا جاتا ہے ، اور ایک گروہ آج بھی سعودی عربیہ کی ریاست کے ہر فیصلے کو حکم ربانی سمجھ کر تسلیم کرتا ہے۔
کابل میں طالبان کی حکومت اسلام آباد (اور راولپنڈی)، ریاض، اور واشنگٹن کے مثلث کی حمایت سے قائم ہوئی تھی۔ اب یہ سارے مراکز ان کے دشمن بن چکے تھے۔ لیکن طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ تو بہت پہلے ہو چکا تھا، اور نو گیارہ کی تیاری بھی پہلے سے شروع ہو چکی تھی۔ بامیان کا گوتم بدھ کے مجسمہ کا انہدام طالبان کے خلاف پروپگنڈا کانیا بہانہ تھا۔ بامیان افغانستان کے وسطی پہاڑیوں میں ہندوکش کے بلند پہاڑوں میں واقع ہے۔
بامیان کا قدیم مجسمہ دراصل بہت پہلے اپنی شکل و صورت کھو چکا تھا اور بس ایک پتھر کا ہیولا یا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 17ویں صدی میں ، موحدمغل بادشاہ اورنگ زیب نے توپوں کے ذریعہ ان دیو ہیکل سخت پتھر سے بنے ان مجسموں پر حملہ کیا تھا جس سے مجسمہ کو نقصان پہنچا اور ان کے پیر ٹوٹ گئے تھے۔ بامیان کے مجسموں کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش اٹھارہویں صدی کے فارسی بادشاہ نادر افشار نے کی تھی ، جس میں ان پر توپوں سے فائرکیا گیا تھا۔
بگڑے ہوئے ان مجسموں کو نئی شکل بھارت کے ایک ہندو سنگ تراش نے دی تھی۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے 1969 میں بامیان کا دورہ اسی کے افتتاح کے لیے کیا تھا۔ حکومت ہندکی بھاری مالی امداد سے ان مجسموں کو دوبارہ بنایا گیا تھا۔ چنانچہ یہ مجسمے چھٹی صدی عیسوی کے نام نہاد یادگار مجسمے نہیں ہیں جس کو یونیسکو نے تاریخی اور ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ بلکہ یہ بت پرست بھارتی حکومت کی طرف سے دور جدید میں بیسویں صدی کے وسط میں بنا ئے ہوئے جدید مجسمے تھے۔
طالبان کی قیادت نے ان دیو قامت مجسموں کو گرانے کا فیصلہ دو وجوہات سے کیا تھا؛ پہلی وجہ یہ کہ اسلامی امارت افغانستان میں پبلک مقامات پر مجسمے نصب نہیں کیے جا سکتے اور یہ دونوں طویل قا مت مجسمے قبلہ رخ بھی تھے۔ نماز کے وقت نمازی کے سر کے اوپر بلند دو بت تھے جسے بہرحال مسلمانوں کا اجتماعی مزاج گوارہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس انہدام کے وقت میں اس وقت میں نیویارک سے نکلنے والے انگریزی اخبار مسلمس ویکلی (سابق) کا پبلشر اور ایڈیٹر تھا۔ طالبان کے اس ابراہیمی عمل کی ہم نے کھل کر حمایت کی تھی۔ ہمارا اخبار امریکا کا واحد اخبار تھا جس نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ بدھا کے بتوں کو گرانے کے خلاف امریکی اور مغربی اخبارات کے اداریے ، اور ادارتی صفحات پر کالموں اور مضامین کی بھرمار تھی۔ ایسے ہزاروں ایڈیٹوریل پیس کو کھنگالنے کے بعد مجھے صرف ایک مضمون ایسا ملا جو طالبان کے اس عمل کی حمایت میں تھا۔ یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں چھپا تھا، اور لکھنے والا ایک یہودی تھا۔ اس نے لکھا کہ طالبان نے وہی کام کیا جو ہمیشہ سے انبیاء کرتے آئے ہیں۔ موسیٰؑ نے بھی یہی کیا اور ابراہیم ؑ نے بھی یہی کیا تھا۔ اس نے کہا کہ آج کی جدید دنیا آرٹ اور ثقافت کے نام پر بت پرستی کر رہی ہے۔ اور طالبان بت کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم نے اس مضمون کو نکال کر واشنگٹن پوسٹ کے شکریے کے ساتھ اخبار کے پہلے صفحہ پر نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔
طالبان نے پوری دنیا کی ایک نہیں سنی اور وہ ابراہیمی کردار ادا کیا جس کے بعد باطل (پوری دنیا مل کر) بڑا الاؤ تیار کرتا ہے اور ادھر اللہ کے حکم سے آگ جلانے کا کام چھوڑ کرٹھنڈی اور سراسر سلامتی بن جاتی ہے۔’’ہم نے کہا’’اے آگ،ٹھنڈی ہوجااورسلامتی بن جاابراہیمؑ پر۔‘‘ ( سورہ انبیا، آیت 69)
امریکا نے افغانستان پر حملہ کے ( جس کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا) وقت طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کر دے جو ان کے نزدیک نائن ایلیون کا ذمہ دار تھا۔ طالبان نے سوال کیا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ ہمارا مہمان اس کا ذمہ دار ہے، آپ شہادت فراہم کریں تو ہم انھیں آپ کے حوالہ کر دیتے ہیں۔ امریکا کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا سوائے لندن اور نیو یارک سے شائع ہونے والے ٹبلو ئڈاور چیتھڑے ا خبار ات میں چھپنے والی سنسنی خیز خبروں کے تراشوں کے۔
طالبان نے تواضع اور مہمان نوازی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ حکومت گنوا دی لیکن اپنے مہمانوں اور محسنوں سے بے وفائی نہیں کی۔ اس کے بعد اللہ نے بیس سال انھیں آزمائش کی ہر بھٹی سے گزار کر کندن کر دیا۔ انھیں جنگی، سیاسی، سفارتی آداب سکھائے گئے۔ اس میں مہارت حاصل ہوئی۔اور وہ ایمان کے بلند ترین مقام پر آگئے۔اور ان کی حالت یہ ہوگئی کہ ’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا۔ اور انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘ (آل عمران: 173 )
اور اس کے بعد اللہ کی خصوصی مدد آگئی . ’’ اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا ‘‘۔( بنی اسرائیل : 81)