کشمیر کے انتخابی نتائج

408

ریاست جموں وکشمیر کے انتخابات میں ہمیشہ وہ ہی پارٹی اقتدار میں آتی ہے جو کہ پاکستان میں اقتدارمیں ہو۔ لہٰذا 2021میں جب اسلام آباد میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے تو آزاد وجموں کشمیر انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی ہے۔ آزاد وجموں کشمیر کے موجودہ انتخابات میں فضا شروع ہی سے تحریک انصاف کے لیے بن رہی تھی۔ انتخابی مہم شروع ہوتے ہی فصلی بٹیربڑی تعداد میں تحریک انصاف میں شا مل ہوگئے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کی اقتدار والی پارٹی تھی اور اس کے علاوہ پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس نے بھی بڑا زورلگایا۔ مریم نواز، بلاول بھٹو کے لیے اسٹیج سجائے گئے لیکن کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ پولنگکے اختتام پر فوری طور پر مریم نے ٹوئٹ کیا کہ ’’ہم جیت رہے ہیں اور حکومت مسلم لیگ (ن) ہی بنائے گی‘‘ لیکن جیسے جیسے نتائج آنا شروع ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا پارہ چڑھنا شروع ہوگیا اور دونوں پارٹیوں نے دھاندلی کے الزامات لگانے شروع کر دیے۔ کشمیر کے لیے ہزاروں جوان شہید اور ملک بھر میں کشمیر کے لیے سب سے زیادہ موثر مہم چلانے والی جماعت اسلامی کو ایک سیٹ بھی نہ مل سکی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے توانتخاب سے قبل ہی کہ دیا تھا کہ ’’آزاد کشمیر میں الیکشن نہیں سلیکشن ہو رہا ہے ۔لوگو ںکو خریدا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی،ن لیگ ،پی پی پی،سب سری نگر نہیں مظفر آباد کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب کا بالکل درست تجزیہ تھااور یہ حرف با حرف سچ ثابت ہوا۔ آزاد کشمیر کے ان انتخابات میں جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ اپنے پرچم اور اپنے نشان پر تیس حلقوں میں الیکشن لڑا۔ پاکستان ہو یا کشمیر سرمائے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ 1970 کے الیکشن کے تناظر میںسید ابو الاعلی مودودی ؒ سے سوال کیا گیا کہ کہ آپ کی تیس چالیس سال کی محنتوں اور کوششوں کے باوجود جماعت اسلامی اقتدار حاصل نہیں کر سکی اور پیپلز پارٹی چندسال کے اندر اقتدار تک پہنچ گئی ہے اور یہ جماعت کے ناکام ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ سید مودودی ؒ نے اس موقع پر کیا خوب جواب دیا تھا۔ انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ ’’جماعت کو سچائی نے شکست نہیں دی جھوٹ نے شکست دی ہے۔ جماعت اگر سچائی سے شکست کھاتی تو اس کے لیے ندامت کا مقام تھا لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے تو اس کا سر فخر سے بلند ہے۔ وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی، وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بد اخلاقی نہیں لائی۔ بلا شبہ آج سید مودودی ؒکی یہ تمام باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں۔ پی ٹی آئی زیادہ سیٹیں حاصل کر کے فتح کا جشن منا رہی ہے اس نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو شکست سے دوچار کیا ہے، کشمیروں نے ہمیشہ اقتدار کا تاج ان قوتوں کے سر پر سجایا جن کے پاس اسلام آباد کااقتدار ہوں تا کہ ان کے مسائل بھی حل ہوںاور اقتدار کے ثمرات بہتر انداز میں سمیٹے جا سکیں۔ لیکن دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ہمیشہ اپنے اپنے اقتدار میں کشمیر یوں کو مایوس کیا آج آپ آزاد کشمیر کا دورہ کریں تو معلوم ہو گا کہ مظفر آباد سے لے کر چکوٹھی تک آپ کو کھنڈرات ہی کھنڈرات نظر آئے گے۔ نہ کوئی سڑکوں کا نظام ہے اور نہ کی صحت اور تعلیم کی بہتری، گیس کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ حکمران طبقہ کبھی بھی مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ نہیں ہوا ہے۔ ہر اس انتخاب میں تو یہ پارٹیاںاپنے اقتدار کے حصول کے لیے پاگل ہو گئی تھی اور انتخابی مہم کے جلسوں میںپی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پی پی پی قیادت نے ایک دوسرے کو گالیاں دی اور الزامات لگانے کے سواء کوئی دوسرا کام نہیں کیا ۔کسی بھی جماعت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم پر کوئی آواز نہیں اٹھائی ۔مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں آج بھی سید علی گیلانی ،شبیر شاہ ،آسیہ اندرابی ،یاسین ملک سمیت ہزاروں کشمیری پابند سلاسل ہیں۔پاکستان کے حکمرانو نے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دیا ہے اور کشمیریوں کی حق خوداارادیت کی جدوجہد اور شہدائے کشمیر سے بے وفائی کی جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی آزاد کشمیر کے علاقے تراڑکھل میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری حکومت آزادکشمیر میں دو ریفرنڈم کروائے گی۔ پہلے ریفرنڈم میں کشمیری عوام پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے۔ جبکہ دوسرے ریفرنڈم میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے سیاسی مخالفین آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کے حوالے سے بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کپتان کی اس تقریر کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ ایک جانب بھارت کی مودی سرکار مقبوضہ کشمیر تقریبا ہڑپ کر چکی ہے اور رہا بچا کھچاکشمیر تو اس کوکو عمران اپنے ریفرنڈم کی بھینٹ چڑھا کر اپنے ہاتھ پائوں کٹوانا چاہتے ہیں، ہر ذی شعور کو علم ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت اسرائیل ودیگر اسلام دشمن قوتیں کتنی متحرک ہیں اور انہوں نے روز اوّل سے وہاںڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان سب کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے اور ریفرنڈم میں پیسہ چلا اور بین الاقوامی قوتیں متحرک ہوئیں تو پاکستان حکومت کے پاس ہاتھ ملنے اور افسوس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ الیکشن میں دھاندلی کا نعرہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پاکستان میں تو ہر شکست خورہ پارٹی دھاندلی کا رونا اور واویلا کر کے اپنی شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ سراج الحق نے تو بالکل درست فرمایا کہ کشمیر میں الیکشن نہیں سلیکشن ہواہے تو پھر اتنے پاپڑ بیلنے اور ہلڑ بازی کی کیا ضرورت ہے۔ مقتدر قوتیں اپنی مرضی کے مطابق اقتدار کا ہما من پسند پارٹی کے سر پر سجا دیا کریں اس سے الیکشن مہم میںخرچ ہونے والے عوام کے اربوں روپے کی خون پسینے کی کمائی بھی اس بے دردری کے ساتھ ضائع ہونے سے بچ جائے گی۔