بنکوں کی نئی ڈکیتیاں

483

گزشتہ برس بنکوں کی ڈکیتیوں کے عنوان سے اپنے تجربات اور تاثرات تحریر کیے تھے تو اسی ماہ بینکوں نے ڈکیتیوں میں اضافہ کر دیا تھا ۔ ہم نے سوال اٹھایا تھا کہ بنک ہر ماہ ہر صارف سے50روپے اس سروس کے وصول کر رہے ہیں جو اس صارف نے طلب نہیں کی تھی تو اس کے اکائونٹ سے یہ رقم کیوں کاٹی جا رہی ہے اس تحریر کی اشاعت کے فوراً بعد یہ رقم75 روپے ماہانہ ہو گئی ، ہمیں جس اکائونٹ کے بارے میں شکایت تھی اس کے لیے متعلقہ بنک جا کر یہ جبری سروس ختم کروائی گئی ۔ چونکہ پاکستان کے عوام بہت امیر ہیں اور کسی صارف نے بنکنگ محتسب یا بنکنگ کورٹ سے رجوع نہیں کیا اس لیے بنکوں نے چھ ماہ کی مدت میں اس رقم میں اضافہ کر دیا چونکہ اس کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اس لیے بنکوں نے بڑے آرام سے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ اب ہر اکائونٹ ہولڈر سے100روپے وصول کیے جا رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ سے زیادہ اکائونٹ ہولڈرز( کھاتیدار ہیں ، اگر ایک کروڑ کو معاف بھی کر دیں تو بھی کم و بیش40کروڑ روپے بنکوں کے کھاتیداروں سے ماہانہ محض اس سروس کے وصول کیے جا رہے ہیں جو انہوں نے مانگی ہو یا نہ مانگی ہو ۔ جبکہ دیگر خدمات الگ ہیں جو بہت سے صارفین مانگتے ہیں یا ان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ گویا بنک صارفین کی رقم پر جو منافع حاصل کرتے ہیں اس کے علاوہ کروڑ ہا روپے ان کو اپنے صارفین کے اکائونٹ سے یوں ہی مل رہے ہیں ۔ ایک اور کام بڑی چابکدستی سے کیا جا رہا ہے ۔ جہاں کسی نے50 ہزار یا اس سے زیادہ کا چیک کسی سرمایہ کار کمپنی کو دیا بنک نے اس میں خوبصورتی سے اڑنگا لگا دیا ۔ جی ان کے دستخط، ان کے ریکارڈ پر موجود دستخط کے مماثل نہیں ۔ ایسا چھوٹا سا معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہوا جب معلوم کیا گیا کہ ایسی کیا قیامت آ گئی ہے تو تحقیق پر پتا چلا کہ آپ کے دستخط کے دو حصوں میں کارڈمیں موجود دستخط کے جتنا فاصلہ نہیں تھا ۔ شاید کورونا کی وجہ سے دستخطوں میں بھی فاصلہ ہونا چاہیے ۔ ہم نے چیک پر دوبارہ دستخط کیے(بغیر فاصلے کے )اور یہ چیک کلیئر ہو گیا ۔ اس میں کیا قیامت آ گئی ۔ ہو جاتا ہے بھئی ۔ نہیں ہو جاتا نہیں ہے کیا جاتا ہے ۔ ایک بار پھر چار کروڑ صارفین کو مد نظرر کھیں اس میں سے75 فیصد کو معاف کر دیں صرف ایک کروڑ صارفین کے 50ہزار لاکھ دو لاکھ کے چیک اس طرح روکنے سے بنکوں کو کیا فائدہ ہو گا ۔ جتنے روز یہ پیسے ان کے بنکوں میں رہیں گے ان پر منافع انہیں ملتا رہے گا ۔ اگر ہربنک کے صارفین کے چیک صرف ایک ہفتے کے لیے روکے جائیں تو بنکوں کو نا حق منافع ملے گا ۔ ہے ناں بڑی وائٹ کالر قسم کی ڈکیتی ۔ لیکن یہ ایف اے ٹی ایف کے زمرے میں نہیں آتی ۔ بنک اکائونٹ ڈارمنٹ (غیر فعال)ہو گیا ۔ یہ بات اور مسئلہ تو تنخواہ اور گھریلو خواتین اور کم آمدنی والوں کے ساتھ معمول ہے ۔ ایسے مسائل میں ڈارمنٹ اکائونٹ (غیر فعال )بحال کرانا ایسا ہے جیسے آپ آج کل صبح کینیڈا جانے اور شام کو امریکا جانے کی کوشش کریں گے ۔ اگلے دن برطانیہ کا قصد کریں اور پھر عمرہ کرنے کی بات کریں ۔ آپ کا اکائونٹ ڈارمنٹ ہے آپ پیسے نہیں نکال سکتے ۔ اچھا تو بحال کیسے ہو گا ۔ وہی طریقہ… آج آیئے ، کل آیئے اورپھر یہ لایئے ۔ وہ لایئے ، اور لاک ڈائون نے تو چاندی کر دی ہے ۔ بندہ نہیں آ رہا ۔ اگلے ہفتے آیئے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بنک میں آپ کے پیسے نہیں بنک کے ہیں جو آپ کے نام اکائونٹ میں ہیں ۔
سب سے زیادہ کوفت ہوتی ہے ۔ سسٹم کے نام پر تکلیف دینے کے عمل سے ۔ بنک کے پبلک ڈیلنگ کے اوقات صبح9 بجے شروع ہوتے ہیں ۔ آپ صبح9بجکر15 منٹ پر بنک پہنچ جائیں، کبھی کبھی تو دروازہ ہی نہیںکھلتا گارڈ روک لیتا ہے کہ ابھی نہیں جا سکتے ۔ویسے گارڈ تو پورے ملک میں کہیں بھی روک سکتا ہے ملک کا کنٹرول ہی گارڈ کے پاس ہے ۔ اسٹاف پورا نہیں ہے ۔ اندر جائیں تو ایک اور بہانہ استقبال کرتا ہے ۔ ابھی سسٹم آن ہو رہا ہے ۔ ٹائم لگے گا ۔ کسی اور بینک میں چلے جائیں ۔ یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر بنک کے دروازے پر یہ لکھا ہوکہ بنک کے اوقات کار صبح9بجے سے شام5:30تک ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ9بجے پبلک ڈیلنگ شروع ہو جانی چاہیے ۔ پھر سسٹم کا کیا کریں ۔ کیا اسے عملہ پہلے آ کر آن نہیں کر سکتا ۔ سسٹم سست چلنا اور آن لائن سسٹم خراب ہونا تو معمول کی بات ہے لیکن اگر ایک شخص گھر سے نکل کر بنک میں پیسے جمع کرانا چاہتا ہے تو پیسے لے کر و ہ کہاں کہاں پھرے گا ۔ ہر ایک کے پاس گاڑی یا سواری نہیں ہوتی ۔ یہ سارا عمل صارف کے وقت پر بھی ڈاکا ہے ۔ بنکوں کو اپنے صارفین کو سہولت پہنچانے کا ذمے دار بنانا تو اسٹیٹ بنک کا کام ہے ۔یقیناً یہ تحریر اسٹیٹ بینک کے لیے معاون ثابت ہو گی ۔ اسٹیٹ بینک کے ذمے دار تو یہی کہتے ہیں کہ صارف کے ساتھ ایسا کرنا بنکوں کا غلط رویہ ہے ۔ انہیں9بجے کائونٹر پر کام شروع کرنے کا کہا جاتا ہے ۔ یعنی یقیناً انہیں پہلے سے آ کر یہ کام کرنے چاہئیں ۔اس میں کسی ایک بنک کی شکایت نہیں ہے ۔ یہ عمومی رویہ ہے ۔