’’کیسی ہے یہ آزادی ؟‘‘

561

لے کے رہیں گے آزادی۔۔چھین کے لیں گے آزادی
سماجی اقدار سے آزادی
خاندانی حصار سے آزادی
دینی عقائد و تعلیمات سے آزادی۔
کچھ عرصے سے یہی نعرے ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کر کے بے حیائی ، بے شرمی اور بدتہذیبی کی دلدل میں دھنساتے چلے جا رہے ہیں؟؟
آج اسلام آباد کی نو جوان لڑکی ’’نور مقدم‘‘ کے وحشیانہ قتل سے ہر آنکھ اشکبار ہے۔ خوف اور دہشت کی فضا میں سب والدین متفکر ہیں۔ اس اندوہناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
قاتل ظاہر جعفر نے ایک آزاد خیال گھرانے میں پرورش پائی۔ بچپن میں انٹرنیشنل اسکول کی آزاد فضا میں او لیول کی تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم امریکا کی آزاد فضاؤں سے حاصل کی۔ زندگی کا ہر لمحہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق گزاری۔ بے لگام آزادی کے نتیجے میں بے شمار اخلاقی امراض میں مبتلا ہو گیا۔ ہائی سوسائٹی کی ڈانس پارٹیز منشیات اور شراب نوشی کا عادی ہوتا چلا گیا۔ والدین کی جانب سے دی گئی اس غیر ضروری آزادی کی وجہ سے اپنی غلط حرکتوں کے باعث ظاہر جعفر امریکا میں تین ماہ جیل کی ہوا بھی کھا چکا ہے۔ سفاک قاتل کی مجرمانہ ذہنیت معلوم ہونے کے باوجود والدین نے اسے شہر بھر میں من مانی کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی تھی جس کا انجام بالآخر ایک لڑکی کے بہیمانہ قپل صورت میں بر آمد ہوا ۔
مادر پدر آزاد فضا نوجوان نسل کو دے کر ان کی تربیت اور کردار سازی کے اہم فرض سے ہم کیسے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ کیا اولاد کی نگہداشت کرنے کے بجائے ان کی ڈوریں اپنے تجربے کار ہاتھوں سے ہمیں چھوڑ دینی چاہئیں ؟؟؟؟
ظاہر جعفر کو مکمل طور سے وہی آزادی میسر تھی جس نوعیت۔ کی آزادی نام۔ نہاد سیکولر طبقے کے افراد ہر پاکستانی بچے کو دلوانا چاہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں والدین اپنے بچوں کو اخلاقی اور روحانی رزائل سے روکنے کا حق کھو سکتے ہیں۔کیونکہ اس نئے قانون کے مطابق شخصی رضامندی اور پسند ناپسند کسی بھی دیگر محرک سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے پھر چاہے وہ والدین کی مخلصانہ شخصیت ہی کیوں نہ ہوں۔
مجرم ظاہر جعفر کے والدین بھی اپنے بیٹے کی شخصی آزادی کے آگے اس قدر بے بس ہو چکے تھے کہ وہ اس کی رہنمائی اور سرزنش کرنے کے حق سے بھی محروم ہو چکے تھے۔ والدین اگر اولاد کی تربیت کا اختیار اور حق کھو دیں اور وہ اپنی اولاد کے معاملات سے بے خبر ہو جائیں تو پھر ایسے گھناؤنے واقعات کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔
اسلامی تصور آزادی اس سیکولر نظری آزادی سے یکسر مختلف اور جامع ہے ۔
اسلامی شریعت سے زیادہ والدین اور اولاد اور دیگر تمام رشتوں کے متوازن اور مکمل حقوق کوئی بھی قانون نہیں دے سکتا۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ والدین کی اطاعت اور خدمت کے بغیر ہم جنت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ اور والدین کو پابند کرتا ہے کے وہ اولاد۔ کی بہترین پرورش کریں اور باکردار مسلمان بنائیں ۔
اسلامی معاشرے میں مرد و عورت کو من مانی کرنے کی قطعی آزادی نہیں ہے۔ ایک مسلمان باحیا غیرت مند، صالح کردار ہوتا ہے اور اسلام کی قائم کردہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا پابند ہوتا ہے۔
آج سے ساڑھے چودہ سو سال سال پہلے اسلام کی خاتون اول ام المومنین حضرت خدیجہ ّ کو اپنے موروثی کاروبار تجارت کو چلانے کی مکمل آزادی تھی۔آپ اپنی تجارت کی شراکت داری کے فیصلے سے لے کر سامان تجارت کی نقل وحمل کے لیے بھی افراد کے چناؤ کا فیصلہ بذات خود فرماتیں۔ اورایک ملٹی نیشنل تجارتی کمپنی کو بہترین انداز سے چلا رہی تھیں۔ انہوں نے پیارے نبیؐ کو اپنا لائف پاٹنر خود چنا تھا انہیں اس اختیار کی مکمل آزادی تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے شادی کا پیغام بھی خود اپنی سہیلی کے ذریعے پہنچایا تھا۔ نبیؐ آپ کی بے انتہاء قدر ومنزلت فرماتے تھے۔ اور آپ کی رائے اور مشورے کو سراہتے اور اہمیت دیتے تھے۔
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے نبیؐ کے وصال کے بعد آپ کی اعلیٰ تعلیمات کو جلیل القدر صحابہؓ تک پہنچانے کی مکمل آزادی تھی۔ قرآن و حدیث کی تدریس کا سلسلہ آپ کے وصال تک جاری رہا۔ اور اس کے بعد آپ کے علمی خدمات سے فیضیاب ہونے والی خواتین علما مدینہ عراق کوفہ اور بصرہ میں ہزاروں افراد کے دل و دماغ کو منور کرتی رہیں۔
خواتین صحابیات کو غزوات میں مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنے دین کی سر بلندی کے لیے ایک جنگجو سپاہی کے فرائض ادا کرنے کی آزادی تھی۔ غزوئہ احد کے گھمسان کے معرکہ میں خاتون صحابیؐ حضرت ام۔ عمارہؓ نے بے مثال جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تلوار کے وار سے کئی کفار کو جہنم واصل کیا۔نبیؐ کے چاروں جانب حضرت ام عمارہ برق رفتار گارڈ کی طرح آپؐ کی حفاظت کے فرائض انجام دیتی رہیں۔
غور کریں کے آزادی کا اسلامی تصور کس قدر باوقار اور مضبوط ہے۔ جبکہ خود ساختہ نفسانی خواہشات پر مبنی تصور آزادی کتنا غیر محفوظ اور بودا ہے۔ الحاد پرستی اور مغربی تہذیبوں کی یلغار کے اس خطرناک دور میں اپنی اسلامی تہذیب کو نسل نو تک پہنچانا ہم سب کی ذمے داری ہے ۔
وقت آگیا ہے کہ آدھے تیتر آدھے بٹیر بننے کے بجائے اپنے اعلیٰ اسلامی تصور آزادی کو اپنایا جائے کیونکہ دین اسلام دین فطرت ہے اس کے عطاکردہ احکامات ہی میں ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی پنہاں ہے ۔