طاعون اصل میں ہے کیا؟

561

صحیحین کی ایک روایت میں حفصہ بنے سیرین سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘طاعون سے مرنا ہر مسلمان کیلئے اللہ کی راہ میں شہید ہونا ہے’

طاعون لغت میں وبا کی ایک قسم ہے، صحاح میں ہے کہ لغت تو یہ ہے مگر اطباء کے نزدیک ایک ردی جان لیوا ورم ہے جس کے ساتھ سخت قسم کی سوزش اور غیر معمولی درد و بےچینی ہوتی ہے۔ یہ ورم اپنی حد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس ورم کے ارد گرد کا اکثر حصہ سیاہ سبز مٹیالہ ہوتا ہے اور بڑی جلدی اس میں زخم پڑ جاتا ہے۔

طاعون کی بیماری عموماً 3 جگہوں پر ہوتی ہے: بغل، کان کت پیچھے، کنج ران اور نرم گوشت میں۔ اطباء کے نزدیک نرم گوشت، بغل، کان کے پیچھے یا کنج ران کا فاسد پھوڑا طاعون کہلاتا ہے جس کے سبب خون ردی جسکی رداءت آمادہ عفونت و فساد ہو اور جلد ہی زہریلے جوہر میں تبدیل ہوجائے، عضوء کو فاسد کردیتا ہے اور اس کا ارد گرد بھی خراب ہوجاتا ہے۔

کبھی کبھی طاعون کا زخم پھٹ جاتا ہے جس سے خون اور پیپ بہنے لگتا ہے۔ اس کی سمیت دل میں ردی کیفیات پیدا کردیتی ہے جس سے قےخفقان اور بےہوشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اگرچہ طاعون ہر اس ورم کو کہتے ہیں جو قلب کو ردی کیفیات سے آشنا کرے یہاں تک کہ مریض کیلئے ہلاکت کا باعث ہو لیکن اصطلاح میں ایسے ورم کو کہتے ہیں جو غدود میں پیدا ہو اس لیے کہ اس غدود میں ورم کی وجہ سے رداءت صرف انہہ اعضاء تک سرایت کرتی ہے جو کمزور بودے ہوتے ہیں۔

طاعون کی بدترین قسم وہ ہے جس کا ورم بغل یا کان کے پیچھے حصے کی گلٹیوں پر ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں جگہیں سر سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ اس میں سے سرخ گلٹی سنگینی میں سب سے کمتر ہے، پھر اس کے بعد زرد کا درجہ ہے اور جو سیاہ ہو تو پھر اس کے حملے سے کوئی نہیں بچتا۔