کشمیرانتخابات اورجماعتِ اسلامی

539

کشمیرانتخابات میںپاکستان تحریکِ انصاف کی جیت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی شکست کوجہاں بحث کا موضوع بنایا جا رہا ہے، وہیں مذہبی حلقوں میں جماعت اسلامی کی کشمیر انتخابات میں کارکردگی پر تجزیے اور تبصرے بھی خوب کیے جارہے ہیں۔ انتخابات میں کام یاب ہونے والی حکمران جماعت 2018ء کے عام انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد سے اب تک کوئی خاطرخواہ کارکردگی کامظاہرہ نہیں کرپائی۔ اسی بات کو پیشِ نظررکھتے ہوئے انتخابی مہم میں دیگرسیاسی جماعتیںبالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نون اس امیدکے ساتھ شوروغل کرتی نظر آئیں کہ شایدکشمیر ی عوام پاکستان کے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف اوران کے نظریے کومستردکردیں گے مگرتوقع کے برعکس نتیجہ بالکل متضادرہا۔اور یہ تو ہونا ہی تھا ،کیوں کہ کشمیرہویا گلگت بلتستان عموماًپاکستانی حکمران جماعت کشمیر میں اپنی حکومت بنانے میں کام یاب رہتی ہے۔ اوراب ناکام رہ جانے والی جماعتوں کو انتخابی نتائج تسلیم کرلینے چاہئیں۔کیوں کہ:
جس الیکشن کا نتیجہ حق میں ہو
بس وہی ہوتا ہے میرے یار! ہضم
کوئی کب کرتا ہے صبروشکر سے
دوسرے کی جیت، اپنی ہار ہضم
خیر! پاکستان کے موجودہ حالات میں جہاں حکمران جماعت ذمہ دار ٹھہرائی جانی چاہیے، وہیں پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کو بھی اپنے گریبانوں میں جھانکنے اوراپنے اپنے حلقہ جات میں اپنی حکومتی کارکردگی کابھی جائزہ لینا چاہیے۔ کیا بلاول بھٹوزرداری سندھ کی زبوں حالی سے نظریں چُراکرکشمیرکی تقدیربدلنے اور انہیں ان کے حقوق دلانے کے لیے آزاد کشمیرمیں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کوصرف اورصرف سندھ کے عوام کی ابتر صورتِ حال کو بہترکرنے پر اپنی توجہ مرکوزکر دینی چاہیے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ جس سندھ دھرتی پر ان کے محل قائم ہیں وہیں سے انہیں دربدر کر دیا جائے، لیکن یہ دور دور تک ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ سندھ میں کل بھی بھٹوزندہ تھا، آج بھی بھٹوزندہ ہے، اورسندھ کے عوام کے سیاسی مزاج کو دیکھ کر لگتاہے کہ سندھ میں اگلے ماہ وسال میں بھی بھٹو زندہ رہے گا۔
کشمیرانتخابات کو موضوع بناتے ہوئے دینی شعوررکھنے والے اس بات پر ششدروحیراں ہیں کہ پورے کشمیرمیں جماعت اسلامی کوایک سیٹ بھی نہ مل پائی، گویااہلِ کشمیرنے اس منظم اوردینی مزاج کی حامل جماعت کو ایک سیٹ کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ حالانکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیرکے مسئلے کوزندہ رکھنے ،اس کے لیے شب وروز جدوجہدکرنے ،اپنے کارکنان کی جانوں کانذرانہ پیش کرنے،ہر محاذپرکشمیرکی آزادی کانعرہ بلندکرنے والی جماعت کوئی اورنہیں، بلکہ جماعتِ اسلامی ہی ہے۔
مجھے آج بھی یادہے کہ جب 2005ء میں ہولناک زلزلے نے آزادکشمیرکے ایک بڑے حصے کواپنی لپیٹ میں لیا،ایسے میں کس طرح جماعت اسلامی کے لوگ ملک بھرسے الخدمت کی امدادی ٹیموں کی صورت میں آزادکشمیرپہنچے تھے۔ایسی کٹھن صورتِ حال میں کیسے ’’مواخاتِ مدینہ‘‘کی طرح انہیں اپنا بھائی جانتے ہوئے فی الوقت ان کی حاجات کی تکمیل کاسامان کیاتھا،ان کے زخموں پر پھایا رکھاتھا،ان کے ڈھارس بندھاتے ہوئے انہیں گلے لگایاتھا،وہ سب کچھ کیاتھا جو ایک بھائی اپنے سگے بھائی کے لیے کرتا ہے۔ لیکن ہم بحیثیت قوم اپنے محسنوں کو بھول جانے والی قوم ہے۔ دو ٹکے کے فائدے کے لیے اپنے ضمیرکا سودا کردینے والے ناسوربھی اس قوم میں شامل ہوکراس کے مستقبل کو تاریک سے تاریک ترکرنے میں اپناحصہ ملارہے ہیں۔ کہیں قومیت، لسانیت اور خاندانی عصبیت کی بنیادپر اپنے ضمیرکاسوداکرنے سے بھی یہ لوگ پیچھے نہیں رہتے۔ بقول سہیل وڑائچ کہ ووٹروں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں، کچھ تو پکے ووٹرہوتے ہیں جب کہ کچھ مطلب پرست اور مفاد پرست ہوتے ہیںجو یہ دیکھتے ہیں کہ کس پارٹی کاسرکار و دربارمیں رسوخ ہے،اس کی جھولی میں اپناووٹ ڈال دیتے ہیں۔
خیرجماعتِ اسلامی کی شفافیت ،دیانت داری اورخدمتِ خلق کے باوجود اگراہلِ کشمیرنے جماعت کے امیدواروںکو اپنے سروں کاتاج نہیں بنایا تو اس میں کہیں بھی اس جماعت کے ذمہ داران اوراس کے ورکرزکانقص ہرگز نہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانامودودیؒسے 1970کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی اقتدار حاصل کرنے میں ناکامی کے تناظرمیں پوچھا گیا کہ کیا جماعتِ اسلامی ناکام ہوگئی ؟ تو مولانا بڑے مدبرانہ انداز میں اس کا جواب دیتے ہوئے اپنے کارکنان سے مخاطب ہوئے کہ جوذمہ داری آپ پر ہے وہ یہ کہ اللہ اوراس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کام کریں،آپ اس بات کے مکلف نہیںہیں کہ اس ملک کے اندرضروراسلامی نظام قائم کریں۔ اسلامی نظام کا قیام تواس قوم کی صلاحیت اوراستعداد پر منحصرہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس قابل سمجھتاہے کہ اسے اسلامی نظام کی برکتوںسے مالامال کرے یا انہیں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑدے۔
ہم منظرِ حق کا ہر پہلو دنیا کو دکھا کر دم لیں گے
ہم قال اللہ وقال رسول دنیا کو سنا کر دم لیں گے
کسی نے بہت خوب نکتہ بیان کیاکہ جب یہ قوم اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے آمادہ ہوگی توجماعتِ اسلامی کوضرورووٹ دے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شکست کے باوجوداس جماعت کے لوگ اگلے دن سے پھر اہلِ کشمیرکی خدمت میں جُت جائیں گے۔ساتھ یہ بھی عرض کردوں کہ فقط انتخابات نہیں بلکہ بعداز انتخابات اب اہلِ کشمیربہت خوب جان لیں گے کہ انھوں نے کس طرح پرانے چہروں کوقبول کرکے اوراپنے محسنوں اورمیسحاؤ ں کو مسترد کر کے اپنی قسمت کا سودا کیاہے!
بقولِ انورشعور:
عزیزو! کوئی خوش ہے، کوئی ناخوش
خدا جانے، رہا کیسا نتیجہ
الیکشن کا نتیجہ آ گیا ہے
اب آئے گا نتیجے کا نتیجہ