سسکتا کر اچی

382

کراچی شہر کی جو شکستہ حا لت آج ہے شاید کبھی نہ تھی جہاں سے گزر جائیں لگتا ہے کو ئی اس شہر کا پرسان حا ل نہیں ہے بو سیدہ سڑکیں جن پر سفر کر نا محال ہے جا بجا سڑکوں پر گٹروں کا تعفن زدہ پانی بہتا دکھائی دیتا ہے اسی گند زدہ پانی کی وجہ سے سڑکوں پر بڑے بڑے گڑہے پڑ رہے ہیں ان گڑہوں کی وجہ نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے بلکہ رات کی تاریکی میں مسافر حادثات کا شکار بھی ہو رہے ہیں اس سنگین ترین صورتحال کا جا ئزہ لیں تو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ نہ تو اس شہر میں کو ئی حکومت ہے اور نہ ہی کو ئی ادارہ اس شہر کو جو کبھی اپنی رونق کے سبب عروس البلا د تھا کوئی اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تیار نہیں اس شہر کے شہری سہو لیات کی فراہمی کے ادارے نہ جانے کہاں غا ئب ہیں حا لانکہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس شہر کو شہری سہو لیات فراہم کرنے والے اداروں کے تمام چھوٹے بڑے ہر ماہ با قاعدگی سے اپنی خدمات سے کہیں زیا دہ تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں لیکن نہ جانے اس شہر کی خدمات کن کے سپر د کر کہ سب ہی چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اس شہر میں خدمات انجام دینے والے کسی بھی اعلیٰ سطح کے سرکاری ذمہ دار کو اس بات کا احساس نہیں کہ اس شہر میں لا کھ نہیں بلکہ کروڑ وں افراد رہتے اور بستے ہیں ان بسنے والے شہریوں کو سہولیات کون فراہم کرے گا ْکبھی تو یہ تھا شہر کی منتخب شہری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی لیکن اب تو صوبہ کی صوبائی حکومت براہ راست شہری معاملات کی دیکھ بھال کر رہی ہے اس کہ با جود بھی شہر کو اجا ڑ کردیا گیا ہے سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ شہر کے دیکھ بھال کے ادارے فعال نہیں تو کیوں نہیں کیا انہیں اس شہر کی دیکھ بھال کی مد میں تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں جو اس شہر کی دیکھ بھال سے انکاری ہیں اور اگر ایسا نہیں پھرکیا صوبائی حکومت کو اس شہر کے باسیوں کے مسائل اور معاملات کی کوئی پرواہ نہیں آخر اس شہر کہ باسیوں کو کیوں ابتلا ء میں ڈا لا جا رہا ہے۔ اس شہر سے اس شہر کی شہری انتظامیہ کیوں لا پرواہ ہے اور صوبائی حکومت شہری انتظامیہ کی نا لا ئقی پر کیوں خا موش تما شائی ہے اور سب سے بڑ ھ کر اس صوبے کہ گو رنر صاحب جو کہ اسی شہر کہ باسی بھی ہیں کیا انہیں اس شہر کے باسیوں کی حا لت زار پر رحم نہیں آتا وہ کیوں اس خستہ اور تباہ حال شہر کے اجاڑ ہو نے پر خا موش تما شائی ہیں وہ کیوں شہری انتظامیہ سے اس نا قص صورتحال پر پر باز پر س نہیں کرتے اس طرح تمام ہی ذمہ دار افراد کے صرف نظر کر دینے سے اس شہر کی خستہ حالی میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔ صورتحال بے پناہ مخدوش ہو چکی ہے جبکہ کہ شہر کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے اتنے شتر بے مہار ہو چکے ہیں کہ انہیں شہریوں کی پر یشانی اور شہر کی تباہی کی کوئی پرواہ نہیں ایسی صورتحال میں ہو نا تو یہ چاہیے کہ غیر فعال ہو نے والے افراد اور اداروں کو مستقل غیر فعال کر کہ شہری خدمات کے نئے ادارے نئے اور ذمہ دار افراد کے ساتھ ازسر نو فعال کیے جائیں کیوںکہ جب موجودہ ادارے اور ان میں خدمات انجام دینے والے افراد اپنی ذمہ داریوں کو کو سمجھنے او رانجام دینے کے لیے ہی تیار نہیں پھر ان اداروں کے نام پر تنخواہیں وصول کرنا بھی کو ئی اخلاقی اور قانونی بات نہیں ظاہر سی بات ہے افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں مشاہرہ دیا جاتا ہے لیکن حا لا ت سے ظا ہر ہو تا ہے ان اداروں میں خد مات انجام دینے والے افراد شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی کام کریں یہ نہ کریں تنخواہیں وصول کرنا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ سوچ نے آج شہر کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہیں گٹر کہ ڈھکن غا ئب ہیں اور کہیں گٹروں کا تعفن زدہ پا نی سڑکوں ور گلیوں کو سیراب کر رہا ہے سیوریج کے حوالے سے شہر کی صورت حال اتنی خراب ہے کہ شہر کے بے شمار مکین اپنے اپنے علاقوں میں برسوں سے سیوریج لا ئن کی تبدیلی، گٹروں کی مرمت اور ان پر ڈھکن رکھنے کے لیے درخواستوں پر درخوا ستیں دے رہے ہیں لیکن پر یشان حال عوام کی کہیں کو ئی شنوائی نہیں ہے۔ اسی طرح فراہمی آب کی صورتحال بھی اتنی نا قص ہو چکی ہے۔ شہر کے اکثر علا قوں میں پا نی آتا ہی نہیں، فراہمی و نکاسی آب کے بل با قاعدگی سے فراہم کر دیے جا تے ہیں، کسی زمانے میں شہر کی صور ت حال یہ تھی کہ منہ اندھیرے علا قوں میں جھاڑو صفائی کا کا م کیا جا تا تھا تاکہ دفا تر اور اسکولوں کو جانے والے افراد کسی بھی طرح متاثر نہ ہوں لیکن جب کہ ما حول کی خرابی اپنی انتہا پر ہے جھاڑو صفائی کا عملہ شہر کے مخصوص مقامات پر نما ئشی اقدامات کے طور پر اپنے کام کا آغاز ہی جب کر تا ہے جب ہمارے نو نہال اپنے اسکولوں کو عوام اپنے دفاتر کی جانب رواں دواں ہو تے ہیں ہیں اس طرح صفائی کرنے والا عملہ لو گوں کے نہ صرف لباس کو گرد آلود کرنے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس طرح ڈسٹ الرجی کا شکا ر افراد چھینکتے کھا نستے اپنے اپنے دفا تر کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ بات پا رکوں اور سڑکوں کی جائے تو ان کا حال
بھی کچھ اچھا نہیں ہے پا رکوں کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہے پا رکوں میں بچوں اور خواتین کے بجائے مختلف النوع افراد کا ڈیرہ رہتا ہے، بے شمار مقامات پر سڑکوں کی حالت اتنی ابتر ہو چلی ہے کہ ایسا لگتا ہے قیام پا کستان کے بعد شاید بلڈنگ اینڈ روڈ کا محکمہ ہی غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ اسی شہر میں شہری خدمات کے اداروں کا فعال کردار عوام کو جب دکھائی دیتا ہے جب وہ قانون کا سہا را لے کر کہیں مکانات گراتے نظر آتے ہیں اور کہیں مسجد اور دکا نیں ا یسی غیر ذمہ دارانہ صورت حال میں ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ شہری اداروں کو عوامی بھلائی اور بہتری کے کاموں کے لیے استعمال میں لا ئیں عوامی شکا یتی مراکز کو فعال کریں اور وہا ں ذمہ دار افراد تعینات کیے جائیں جو عوامی مسائل کو تندہی کے ساتھ حل کرنے کی بھرپو ر کو شش کریں کیوںکہ تاحا ل ہو تا یہی رہا ہے کہ عوام اگر شہری سہو لیات کی فراہمی کے اداروں تک رسائی حا صل کر بھی لیتے ہیں تو وہا ں مو جود افرادعوامی شکا یت پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور اگر شکا یت وصول بھی کر لیتے ہیں تو ان شکا یات پر کوئی کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہو تا۔ آج شہر کی مو جودہ صورتحال کی خرابی کی بڑی وجہ دراصل یہ ہے کہ فعال شکایتی مراکز نہ ہو نے کی وجہ سے شہری خدمات انجام دینے والے اداروں کے بیشتر افراد اپنی ڈیو ٹیوں پر ہی وقت پر نہیں پہنچتے اور اس بھی بڑھ کر جب ان کے علا قائی افسران سے رابطے کی کوئی کو شش کی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ صاحب میٹنگ میں گئے ہو ئے ہیں اور ان کی آمد دوپہر کے بعد ہو یا نہ اس کا بھی کچھ پتہ نہیں یہ انتہائی غیر ذمہ دارنہ طرز عمل ہے تمام افسران کا اپنے اپنے دفاتر میں آمد اور روانگی کا شیڈول اور افسران با لا سے میٹنگزکی صورت میں اندارج ہونا ضروری ہے تا کہ سائلین کو کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مشاہدے میں ہے کہ اگر کسی طرح علا قائی افسران کے موبائل نمبرز مل بھی جائیں تو وہ رابطے میں نہیں آتے اور افسران با لا کا تو کہنا ہی کیا ان کے خدمت گزار اہلکار ویسے ہی بڑی رعونت کے ساتھ جو اب دے کر سلسلہ کلام منقطع کر دیتے ہیں جب گو رننس کا یہ حال ہو تو بھلا شہر کی صورت حا ل کیسے بہتر ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ہمارے اخبارات مسلسل شہر کی مخدوش صورتحال کی جانب تمام ذمہ داروں کی توجہ دلانے کی بھرپور کو شش کر رہے ہیں لیکن بے حسی کا حال یہ ہے کہ کسی کو بھی شہر کراچی کی ابتر ہوتی ہوئی صورتحال پر رحم نہیں آرہا ہے۔ ارباب اختیار کو اگر اخبارات کی اطلاعات میں کسی قسم کا ابہام نظر آتا ہے تو وہ خود نکل کرشہر کے گلی کو چوں کا حال دیکھ لیں کہ ہم زما نہ جدید میں رہتے ہوئے زمانہ قدیم میں دھکیلے جا رہے ہیں لو گ مٹی اور گرد سے بچائو کے لیے اپنے گھروں اور دکا نوں کے سامنے پا نی چھڑکتے دکھائی دیتے ہیں یا کہیں گٹروں کا پانی ما حول کو پراگندہ کر تا دکھائی دیتا ہے۔ بس اب تو یہ ہو چلا ہے کہ ہمارے شہر کے لوگ حسرت بھری فکر کے ساتھ یہ سوچنے لگے ہیں نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے عروس البلا د کو گھبرا کے رورہی ہے صبح و شام منہ نہوڑ کے۔
ابھی عید قرباں کا تہوار تھا سب بخوبی جا نتے ہیں کہ مسلمان اس موقع پر جا نور ذبح کرتے ہیں لیکن سا لہائے گزشتہ کی طرح اس سال بھی صفائی ستھرائی کا کام خا صہ غیر تسلی بخش تھا جا بجا جانوروں کی باقیات گلی، محلوں اور سڑکوں کے بیچ اور کناروں پر پڑی شہری انتظامیہ کی کارکردگی کا پو ل کھولتی دکھائی دے رہی تھیں، اس پر بھی بعض ذمہ دارافراد کی رائے ہے کہ شہری انتظامیہ با لخصوص سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نے بہترین کا رکردگی کا مظاہرہ کیا جن افراد کی یہ رائے ہے انہیں اپنے گھروں ، دفاتراور اپنے مراکز سے باہر نکل کر دیکھنا چاہیے تھا تو کبھی بھی ان کے دل ودماغ میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ صفائی ستھرائی کے اداروں کی کارکردگی تسلی بخش تھی یہ تو بھلا ہو ہڈی وکچرا چننے والے افراد کا جو اس اہم مو قع پر بھی شہر بھر میں جانوروں کی با قیات میں سے بھی اپنی ضرورت کی چیزیں نکالتے پھرتے ہیں۔ ان افراد نے شہر سے جا نوروں کے بقا یا جات ٹھکا نے لگانے میں اپنا حصہ ڈالا ورنہ شہر کی حا لت صحت وصفائی کے حوالے سے مزید ابتر ہو جاتی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہر ذمہ دار فرد کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ یہاں کوئی کسی بھی طرح بچ جائے لیکن ہر فرد کو اپنے اپنے اعمال اور ذمہ داریوں کے حوالے سے اللہ کے ہاں بھی جواب دینا ہے ویسے تو ہر ذمہ دار کو اردو کہ عظیم شاعر مرزا غالب کا یہ شعر ہمیشہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے نہ جانے کب خا نہ کعبہ جانے کی کوئی سبیل بن جائے تو ، کعبہ کس منہ سے جاو گے غالب ۔