عراق سے بھی امریکی فوجی انخلا

327

امریکی صدر جوبائیڈن نے اس سال کے آخر تک عراق سے بھی اپنی فوجوں کے نکال لینے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اعلان انہوں نے یہ وہائٹ ہائوس میں عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی سے ملاقات کے بعد مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ چند دنوں قبل دورئہ امریکا سے قبل عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے بھی اپنے ملک سے امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہمیں امریکا یا کسی اور ملک کی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ عراق کی سیکورٹی فورسز اب کسی بھی غیر ملکی فوج کی مدد کے بغیر ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مصطفی الکاظمی کی بھی عراق کے اندر وہی حیثیت ہے جو افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کو حاصل ہے۔ یعنی دونوں امریکی کٹھ پتلی حکومت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں یہ تاثرّ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بااختیار حکمران ہیں۔ عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے امریکا روانہ ہونے سے پہلے عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ عراق سے امریکی فوج کا انخلا ہماری ضرورت کے تحت ہوگا ہم نے داعش کے خلاف آپریشن میں بھی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اس بیان کے دینے کے بعد وہ امریکا روانہ ہوگئے اور ان سے ملاقات کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے عراق سے بھی امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری و فوجی تعاون کے ’’نیا مرحلہ‘‘ جاری رہے گا ۔عراق پر فوجی قبضہ برقرار رکھنے کی جنگ بھی 18 سال پر محیط ہے۔ اس جنگ کو سابق امریکی صدر جارج بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے انٹیلی جنس اداروں کی خفیہ اطلاعات کے مطابق صدام حسین پر الزام عاید کیا تھا کہ اس نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار جمع کرلیے ہیں، اس لیے صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ اور اسے سزا دینا ضروری ہے۔ بعد میں یہ رپورٹ جھوٹی ثابت ہوگئی۔ عراق کی منظم فوج امریکی حملے کا مقابلہ کیے بغیر تحلیل ہوگئی، امریکا نے ایک جعلی مقدمہ چلا کر صدام حسین کو سزائے موت دے دی لیکن عراق تباہ ہوگیا۔ عراق کی جغرافیائی وحدت بھی رسمی طور پر قائم ہے، امریکا نے عراق کو فرقہ وارانہ اور علاقائی بنیادوں پر شیعہ، سنی اور عرب، کرد میں تقسیم کردیا۔ یہ بات دنیا کے اوپر واضح تھی کہ امریکی جنگ کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں۔ افغانستان پر حملے سے قبل نائن الیون کا پراسرار واقعہ پیش آچکا تھا۔ جس کے بارے میں بش نے دنیا کو بتایا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جڑواں عمارت کو طیاروں کے ذریعے القاعدہ کے دہشت گردوں نے تباہ کردیا ہے اور اس کے منصوبہ ساز اسامہ بن لادن کو افغانستان میں طالبان کی حکومت نے پناہ دی ہوئی ہے۔ امارات اسلامیہ افغانستان کے امیر ملا محمد عمر نے شواہد کا مطالبہ کیا، لیکن شواہد پیش نہیں کیے گئے، افغانستان پر قبضے کا فیصلہ پہلے ہی سے ہوچکا تھا۔ افغانستان پر قبضے کے لیے عالمی ذرائع ابلاغ کی مدد سے خوف اور ہمدردی کی فضا پیدا کردی گئی تھی لیکن دونوں جنگیں بلاجواز تھیں۔ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کی رپورٹ جھوٹی ثابت ہوگئی لیکن 18 برس تک امریکا عراق پر قابض رہا اور عالمی سطح پر نام نہاد ’’وارآن ٹیرر‘‘ کے نام پر ظلم و استبداد جاری رہا۔ لاکھوں شہری ہلاک کردیے گئے۔ امریکی ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی شناخت گوانتاناموبے، بگرام اور ابوغریب کے تعذیب خانے ہیں۔ امریکی جھوٹ اور فریب کی گواہی گھر سے بھی آچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرادعی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’’جن لوگوں نے عراق میں جنگ کا فیصلہ کیا وہ لاکھوں نہتے اور بے گناہ شہریوں کے قتل کے ذمے دار ہیں اور ان کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق احتساب ہونا چاہیے‘‘۔ محمد البرادعی نے نام لے کر اس وقت کے امریکی صدر جارج بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر بے گناہوں کے ساتھ جو ظلم کیا گیا ہے اس کی گواہیاں خود امریکی عہدیداروں کی جانب سے بھی آچکی ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کو لن پاول کے چیف آف اسٹاف لارنس ولکینسن نے انکشاف کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی صدر بش، نائب صدر ڈک چینی اور وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کو معلوم تھا کہ 2002ء میں گوانتاناموبے جیل میں ابتدائی طور پر جو 722 قیدی رکھے گئے تھے ان کی اکثریت بے گناہ ہے، لیکن ان کی نظر میں بے گناہوں کو رہا کرنا سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ناممکن بلکہ دونوں نے اس عمل کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے وسیع تر مفاد میں جائز ہے۔ یہ انکشافات اور الزامات امریکی حکومت کے ترجمان اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئے تھے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا اور یورپ کے جرائم چنگیز و ہلاکو سے بڑھ کر ہیں۔ امریکی حکمرانوں نے جس میں سب جماعتوں اور طبقات کے لوگ شامل ہیں انسانیت کے خلاف اس جنگ میں اپنا حصہ لیا اور سچ کو چھپایا ہے۔ لاکھوں افراد قتل ہوگئے۔ 2 ٹریلین ڈالر سے زائد رقم صرف عراق کی جنگ میں جھونک دی گئی۔ اب کہا جارہا ہے کہ داعش خطرہ ہے اور اس کا تسلط روکنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال ضروری ہے۔ داعش عراق پر امریکی فوجی قبضے کے بعد وجود میں آئی اور یہ کھلا راز ہے کہ اس کی پشت پر امریکا ہے، اس تاثر کی تصدیق روسی صدر پیوٹن نے بھی کردی ہے اور الزام عائد کرچکے ہیں کہ داعش امریکا کی تخلیق ہے۔ دراصل امریکا کے حکمران ابلیس کے شاگرد ہیں جو اسلام کی انقلابی تعلیمات اور شریعت کی حکمرانی سے دنیا کو خوف زدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی پیش بینی علامہ اقبالؒ بہت پہلے کرچکے ہیں اور ابلیس کی زبان سے یہ کہلوا چکے ہیں کہ عصر حاضر کے تقاضائوں سے یہ خوف ہے کہ دنیا پر ’’شرع محمد آشکار‘‘ نہ ہوجائے۔ اب سوال یہ ہے کہ افغانستان کے بعد عراق سے بھی امریکی فوجی انخلا کے عوامل کیا ہیں۔ اس بارے میں کئی اہم باتیں ہیں لیکن سب سے اہم عامل روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ خبر کے مطابق ’’امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2020ء میں 385 حاضر سروس فوجیوں نے خودکشی کی۔ 2018ء میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد 326 تھی۔ الاسکا میں ایلن ایربیس کا دورہ کرتے ہوئے وہاں موجود فوجیوں سے اپنے خطاب میں لائیڈ آسٹن نے کہا کہ مجھے فوجیوں میں خودکشی کے بڑھتے رجحان پر تشویش ہورہی ہے۔ یہ رجحان تمام طرز کی فوجوں میں پایا جارہا ہے‘‘۔ یہ بہت بڑا عامل ہے۔ امریکی فوجیوں کو احساس ہوچکاہے کہ انہیں ناجائز جنگ میں دھکیلا گیا ہے اور امریکی حکمراں مرنے والے اور زخمی معذور فوجیوں کی تھوڑی سی تعداد کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ دنیا کے فرعون و نمرود اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس کائنات کا اصل نظام کائنات کا خالق چلارہا ہے اور ظالموں کو محدود مدت تک ہی مہلت ہی دیتا ہے۔