طالبان کو سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہے، وہ خود کو فاتح سمجھتے ہیں، وزیراعظم

914

اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کو سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ خود کو فاتح سمجھتے ہیں، افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان پر دوہرے اثرات کا خدشہ ہے، امریکا افغانستان میں بُرے طریقے سے پھنس چکا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے پہلے تنازع کو فوجی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی، افغان تاریخ کا ادراک رکھنے والے بھی کہتے رہے یہ کوئی حل نہیں، جب میں نے کہا افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں تو مجھے طالبان خان کہا گیا، میں نہیں جانتا افغان جنگ کا کیا مقصد تھا، قوم کی تعمیر، جمہوریت یا عورت کی آزادی جو بھی مقصد تھا طریقہ کار غلط تھا۔

عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے امریکا اور نیٹو افواج مذاکرات کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں، جب ڈیڑھ لاکھ فورسز تھیں تب افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالا جانا چاہیے تھا، امریکا نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ دی تو طالبان سمجھے وہ جیت چکے ہیں، میرے خیال میں امریکا افغانستان میں بُرے طریقے سے پھنس چکا ہے، اب طالبان کو سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہے وہ خود کو فاتح سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اشرف غنی صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے اس وقت امریکا اور طالبان کی بات چیت ہو رہی تھی، پاکستان نے امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا جس کا اعتراف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کیا، صورتحال کے مطابق اشرف غنی کو صدارتی الیکشن نہیں لڑنا چاہیے تھا، اشرف غنی کو الیکشن منسوخ کر کے سب کو سیاسی دھارے میں لانا چاہیے تھا، اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی، طالبان نے اسی وجہ سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جس میں تمام فریق شامل ہوں، افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان پر دوہرے اثرات کا خدشہ ہے،30  لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں اور مزید بھی آجائیں گے، پاکستان کی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔

عمران خان نے کہا کہ خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے یہاں بھی کثیر تعداد میں پشتون ہیں، پشتون اس خانہ جنگی کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن ہم ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس جنگ سے پہلے القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان نہیں تھے، نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، پاکستان نے امریکا کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہو کر اپنی تباہی کی، جس جنگ سے ہمارا تعلق نہیں تھا اس میں 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، اس جنگ میں ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

وزیراعظم نے کہا کہ سویت یونین کے خلاف بھی امریکا نے گروپس تیار کیے، ان کی فنڈنگ کی گئی اور کہا گیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے،50  مختلف گروپس نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، امریکا اور نیٹو اپنی شکست کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہے ہیں، میرے خیال میں یہ ناانصافی کی انتہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10  ہزار جہادی افغانستان میں داخل ہوئے یہ ناقابل فہم ہے، افغانستان کے پاس اگر شواہد ہیں تو ہمارے حوالے کرے، محفوظ پناہ گاہوں کی بات کرنے والے بتائیں کہاں ہیں پناہ گاہیں، پاکستان میں افغان مہاجرین کیمپوں میں ہیں، اگر وہاں کوئی ایسے عناصر موجود ہیں تو کیسے علیحدہ کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم تو کہہ رہے ہیں افغانستان اپنے مہاجرین کو واپس لے جائے، افغانستان میں 40 سال سے خانہ جنگی ہے، افغانستان میں ایسی صورتحال نہیں کہ مہاجرین واپس جا سکیں، افغان مہاجرین پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہیں، اگر ان میں طالبان کی حمایت کرنے والے ہیں تو یہ ہم کیسے جان سکتے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1500 میل طویل سرحد ہے، سارا علاقہ پہاڑی ہے اسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں، برطانوی راج میں اسی وجہ سے دونوں اطراف سے قبائل تقسیم ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ اب پاکستان نے الزامات ختم کرنے کے لیے سرحد پر باڑ لگائی، پاکستان نے پہلی بار خطیر رقم خرچ کر کے باڑ لگائی، پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام 90 فیصد مکمل ہو چکا، اب یہاں ایک مکمل سرحد بن رہی ہے جو پہلے نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے، اب ہمارا ملک کسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا، جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو خودکش حملے ہو رہے تھے، خودکش حملوں سے تجارت اور سیاحت کے شعبے متاثر ہوئے، اب ہم کسی تصادم کو حصہ نہیں بننا چاہتے، امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا، پاکستان امن میں شراکت دار ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ کوئی رخنہ رہا ہے، امریکا نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں، پاکستان کو اس جنگ میں استعمال کیا گیا، پاکستان یہ محسوس کرتا تھا کہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کہ طالبان پر سیاسی حل کے لیے دباؤ ڈالیں، ہم چاہتے ہیں افغان عوام اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں، جو امریکی امداد ہے وہ ہمارے نقصان سے کہیں زیادہ کم ہے، افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا الزام بھی ہمیں دیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کو قریب لانے کے لیے ہم  نے بہت کچھ کیا، کوئی ایسا ملک ہے جس نے کسی دوسرے ملک کے لیے 70 ہزار جانیں دی ہوں، پاکستان سمجھتا ہے کہ ہم امریکا کی جنگ لڑ کر اپنی معیشت کا نقصان کر رہے ہیں، طالبان امریکا اور افغان لیڈرز سے بات چیت کے لیے تیار تھے لیکن اشرف غنی سے نہیں، اسی وجہ سے مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوتے رہے۔