دستِ عثمان ؓ ہے دستِ خیر الوریٰ

370

ذرا سوچیے! اگر کسی شہر کا ڈپٹی کمشنر، آئی جی لیول کا بندہ آپ کو اپنے گھر پر دعوت دے تو آپ کی خوشی کی کیا کیفیت ہوگی؟ اور اگر ملک کا صدر یا وزیرِ اعظم، آرمی چیف آپ کو اپنے گھر پر مدعو کرے اور ساری دنیا کے سامنے آپ سے دوستی کا اعلان کردے تو پھر کیا آپ کے پاؤں زمین پر رہیں گے؟ مبارکبادوں کے جھرمٹ میں کیسا لگ رہا ہوگا؟اور اگر امریکہ کا صدرآپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دے تو پھر تو کیا ہی کہنے!!! آپ خود کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھنے لگیں گے، کہیں آپ کے حسن کا چرچا ہوگا، کہیں آپ کی ذہانت کی باتیں دہراتے اینکرز نہ تھکیں گے، کہیں علمی کمالات کے راگ الاپے جائیں گے تو کہیں کامیاب بزنس مین شمار ہو رہے ہوں گے۔
اندازہ کیجیے کہ جسے سرکارِ دو عالم ﷺ یہ فرمائیں کہ “جنت میں میرا رفیق (دوست) عثمان ہے” (سنن ترمذی) اس کے کیا کہنے!! آقاﷺ کی جنت کیسی ہوگی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس جنت میں دوستی کی خواہش اور چاہت کس کی نہ ہوگی۔ اور صاحبِ جنت خود پیغام سنائے کہ جنت میں میرا رفیق فلاں یعنی حضرت عثمان ہوگا تو حضرت عثمان کی والدہ کی آنکھیں کس قدر ٹھنڈی ہوئی ہوں گی۔
حضرت قبل از اعلان اسلام عربوں میں اپنی سخاوت، فیاضی اور مہمان نوازی کی وجہ سے بڑی مشہور تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ چوں کہ سخی لوگوں کو بہت پسند کرتا ہے، حضرت ارویٰ کو اُن کے بیٹے عثمان سمیت قبول کرلیا اور دونوں نے بڑی رغبت کے ساتھ کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے رضی اللہ عنہما۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کو تاریخِ اسلام میں بلند مقام حاصل ہے۔ ان کی زندگی قیامت تک آخری آنے والے انسان کے لیے روشن مثال اور ہدایت کا نقش پا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں۔ آپ کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحابِ شوریٰ میں بھی ہوتا ہے۔ آپ کی خصوصیات، رسول اللہﷺ سے محبت، دو بیٹیوں سے شادی، دیگر کمالات اور دینِ اسلام کے لیے مثالی خدمات پیش کرنے کی ایک بڑی طویل فہرست ہے۔ان میںکچھ درج ذیل ہیں۔
خصوصیات:
آپ کا شمار قرآن کریم کی اہلِ ایمان کی درجہ بندی میں “السابقون الاولون” میں ہوتا ہے۔
حق کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں آپ چوتھے نمبر پر ہیں۔
قبولِ اسلام کے بعد سب سے پہلے آپ کا نکاح رسول اللہﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوا۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے مدینہ شریف میں انتقال کے بعد رسول اللہﷺ کی دوسری بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح ہوا۔ اس طرح آپ “ذو النورین” (دو نوروں والے) کے لقب سے سرفراز ہوئے۔
آپ وہ خلیفۃ المسلمین ہیں جنہیں دو ہجرتوں کی سعادت ملی، ایک حبشہ کی طرف، دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔
بیعتِ رضوان میں چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں رسول اللہﷺ نے اپنا بایاں ہاتھ آپ کی طرف سے رکھ کر آپ سے اپنی عظیم الشان محبت کا اظہار فرما دیا۔
دستِ عثمان ہے دستِ خیر الوریٰ
اس سے بڑھ کر ہو کیا شان عثمان ؓ کی
رسول اللہﷺ سے کسی پوچھا کہ جنت میں برق یعنی روشنی ہوگی؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس (کے چہرہ کے نور) کی وجہ سے چمک اٹھے گی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد جمعِ قرآن کا عظیم الشان کارنامہ آپ ہی نے انجام دیا اور ساری امت کو اختلاف سے بچا کر ایک مصحف پر جمع فرمادیا۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت:
حُدیبیہ کے موقع پر جب آپ نے سفارتی فرائض انجام دیے تو اہلِ مکہ نے آپ سے کہا بھی کہ اے عثمان! آپ مکہ میں آچکے ہیں تو طواف کرلیجیے۔ آپ نے انکار فرما دیا۔ جب وہاں سے واپس تشریف لائے تو کسی نے پوچھا کہ عثمان! آپ نے تو کعبۃ اللہ کا طواف کرلیا ہوگا؟ سبحان اللہ، کیا عجیب جواب دیا۔ فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں پورا سال مکۂ مکرّمہ میں ٹھہرا رہتا اور پیارے آقاﷺ حُدیبیہ میں ہوتے، تب بھی میں اس وقت تک بیتُ اللہ شریف کا طواف نہ کرتا جب تک کہ آپﷺ طواف نہ کرلیتے۔ ہاں! قریش نے مجھے طواف کرنے کا کہا تو تھا مگر میں نے انکار کردیا۔ (دلائل النبوۃ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عشقِ رسول کی داستان بڑی طویل ہے۔ جب آپ خلیفۃ المسلمین بنے تو سب سے پہلے آپ ہی نے مسجدِ نبوی کو توسیع دی اور اس کی خوبصورتی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کی دیواروں کو منقش پتھروں اور نگینوں سے سجایا۔ نبی کریمﷺ کے دستِ مبارک میں ایک انگوٹھی تھی، آپﷺ کے بعد وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہنی، اُن کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہنی، اور اُن کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسے پہنا۔ جہاں جہاں رسول اللہﷺ تشریف لے جاتے، حضرت عثمان آپﷺ کی رفاقت اختیار فرماتے۔ جہاں آپﷺ خرچ کرنے کا اشارہ فرما دیتے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے مال کے انبار لگا دیتے۔ مسجد نبوی میں جگہ کم پڑنے لگی، رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون ہے جو مسجد کے لیے اپنے خالص مال سے زمین خر یدے اور پھر اس میں عام مسلمانوں کی طرح رہے (یعنی اپنا کوئی حق نہ جتائے) اور جنت میں اس کا بہترین بدلہ پائے؟ حضرت عثمان تو اشارے کے منتظر تھے۔ پچیس ہزار درہم میں مزید زمین خرید کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دی۔
ایک اور موقع پر مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کی تکلیف تھی۔ میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جو ایک یہودی کے قبضے میں تھا۔ وہ بڑے مہنگے داموں پانی فروخت کرتا تھا۔ رسول اللہﷺ چاہتے تھے کہ کوئی اس یہودی سے یہ کنواں خرید کر وقف کر دے تاکہ لوگوں کو سہولت ہو۔ چناں چہ آپﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس کنویں کو خرید کر وقف کردے، اس کے بدلے اسے جنت ملے گی؟ اپنے محبوبﷺ کا اشارہ پاکر حضرت عثمان فوراً تیار ہوگئے۔ اس یہودی سے فروخت کرنے کی بات کی، وہ تیار نہ ہوا۔ آپ مسلسل بات کرتے رہے تو وہ نصف کنواں منہ مانگے دام یعنی بارہ ہزار درہم میں بیچنے پر راضی ہوگیا اس طرح سے کہ ایک دن پانی نکالنے کی حضرت عثمان کی باری ہوگی، اور ایک دن یہودی۔ آپ نے اپنی باری لوگوں پر وقف کردی۔ لوگ بکثرت حضرت عثمان کی باری والے دن آتے اور مفت میں پانی بھر کر لے جاتے۔ یہودی کی باری والے دن کوئی نہ آتا۔ یہ دیکھ کر وہ پچھتانے لگا اور باقی آدھا کنواں بھی آٹھ ہزار درہم بعوض حضرت عثمان کو فروخت کردیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پورا کنواں سب کے لیے وقف کر دیا۔
غزوۂ تبوک میں ساڑھے نو سو اونٹ اور پچاس گھوڑے مع سامان کے خدمتِ اقدسﷺ میں پیش کر دیے۔ اور ایک ہزار دینار اور سات سو اُوقیہ چاندی مزید پیش کر دی۔ رسول اللہﷺ اسے ہاتھوں سے الٹنے پلٹنے لگے اور فرمایا: عثمان اگر آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں۔ عشق ومحبت کو سمجھنا ہے تو اس سچے عاشق سے سمجھنا ہوگا۔ آج کی مطلبی دنیا میں کون ایسا ہوگا جو سرکاری سطح پر اپنے مال کو مسلمانوں کے لیے وقف کرے اور کسی بھی شکل وصورت میں اس کا عوض یا نذرانہ وصول نہ کرے۔ اور کونسی سرکار ایسی ہوگی جو وقف املاک کے فوائد بغیر کسی کم وکاست اور بغیر کسی چارجز، ٹیکسز وغیرہ کے صحیح طریقے سے لوگوں تک پہنچائے اور زائد از ضرورت پبلسٹی سے گریز کرے۔
حیائے عثمان رضی اللہ عنہ:
آج ہمارے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی کمی نیک کردار اور حیا کی ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں اس کا موضوع ہی کوئی نہیں۔ اس موضوع کے حقیقی کردار سے نوجوان نسل ناواقف ہوچکی ہے۔
سارے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حیا کے بہترین شہسوار تھے، اُن میں رسول اللہﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان شہسواروں کا سپہ سالار قرار دیا۔ فرمایا: ((واصدقھم حیاء عثمان) ) یعنی صحابہ میں سب سے سچے حیادار عثمان ہیں۔ (سنن ترمذی) طبرانی نے “معجم اوسط” میں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عثمان بڑے حیا والے، بڑے ستر چھپانے والے ہیں، فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں۔مسند احمد میں ہے کہ اگر دروازہ بند ہوتا تب بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پانی بہانے کے لیے اپنا کپڑا نہ اتارتے، شرم وحیا کی صفت میں اُن میں اس طرح سے کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔