پاکستان سے ڈیل میں ناکا می ،بائیڈن ان فٹ ؟

466

دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یہی روایت چلی آرہی ہے کہ امریکا جس شخص کو پسند نہیں کرتا وہ کسی بھی صلاحیت کا کیوں نہ ہو کسی ملک میں اقتدار میں نہیں آسکتا ہے اور اگر کسی شخص نے دوران اقتدار امریکا کو ناراض کیا تو اس کے لیے اقتدار کی کرسی پر رہنا ناممکن ہے۔ لیکن اب امریکا جیسے ملک میں بھی پاکستان سے دوستی میں ناکام ہو نے والے صدر ِ امریکا کے لیے بھی اب اقتدار میں رہنا کسی طور ممکن نہیں رہے گا۔ واشنگٹن سے موصول ہونے والے امریکی اخبارات کے مطابق وائٹ ہاؤس کے سابق ڈاکٹر رونی جیکسن نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رونی جیکسن نے کہا کہ 22 جولائی کو جوبائیڈن کے خلاف پریس کانفرنس نے صدر ِ امریکا کے آفس کے لیے ان کی فٹنس سے متعلق سنگین سوال کھڑے کردیے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی شاید ثابت ہو گئی ہے کہ امریکا کا صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے میڈیکل کی ضرورت نہیں بس اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کافی ہو تی ہے۔ اس لیے کہ 20جنوری 2021ء کو امریکی صدر ہر طرح سے امریکا کے صدر کے لیے فٹ تھے تو 22 جولائی 2021ء کو اچانک ان فٹ کیسے ہو گئے۔
ڈاکٹر رونی جیکسن کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن کی صحت ان کے عہدے میں رکاوٹ ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن کی پہلی پریس کانفرنس کے لیے من پسند صحافی بلائے گئے تھے جنہوں نے پہلے سے طے شدہ سوال پوچھے تاہم جوبائیڈن مشکل سے ان کا جواب دے سکے۔ یاد رہے کہ عہدہ سنبھالنے کے 65 دن بعد 22 مارچ 2021ء کو پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی نائب صدر کامیلا ہیرس کے ساتھ 2024ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوبارہ سے حصہ لیں گے۔
رونی جیکسن کا کہنا ہے کہ اگر جوبائیڈن اپنے پسندیدہ صحافیوں کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے ہیں تو وہ دوسرے ممالک کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں کس طرح امریکی عوام کی نمائندگی کریں گے۔ گزشتہ ہفتے اٹلانٹا جاتے ہوئے جوبائیڈن جہاز کی سیڑھیوں سے پھسل کر گر پڑے تھے جس کے بعد امریکی میڈیا میں ان کے صحت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جین ساکی نے یہ بتانے سے گریز کیا تھا کہ آیا کسی ڈاکٹر نے جوبائیڈن کا طبی معائنہ کیا یا نہیں۔
ڈاکٹر رونی جیکسن کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن کی کارکردگی سے ہر امریکی کو تشویش ہونا چاہیے۔ امریکی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا ان کا صدر عہدے کے لیے موزوں اور تندرست ہے۔ خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس میں خدمات سرانجام دینے کے دوران امریکی بحریہ کے ریئر ایڈمرل رونی جیکسن پر سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کے ساتھ سفر کے دوران شراب پینے کا الزام لگا تھا اور ان کا طبی معائنہ کیا گیا تھا۔
رونی جیکسن پر الزام لگایا گیا تھا کہ نشے کی حالت میں انہوں نے اپنی ماتحت ایک خاتون میڈیکل افسر سے متعلق نامناسب تبصرے کیے تھے۔ڈاکٹر جیکسن ٹرمپ اور براک اوبامہ دونوں کے سرکاری ڈاکٹر رہ چکے ہیں۔رونی جیکسن کا کہنا ہے کہ اگرصدر نے استعفیٰ نہیں دیا تو اس صورت میں امریکی نائب صدر کامیلا ہیرس کو25 ویں آئینی ترمیم کا استعمال کرنا چاہیے جس کے تحت اختیارات عارضی یا مستقل طور پر صدر سے نائب صدر کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت اگر مثال کے طور پر کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کے باعث صدر اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا پا رہے ہوں تو نائب صدر قائم مقام صدر بن سکتے ہیں۔
امریکی دستور میں 25ویںترمیم کی شق چار کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت مل کر صدر بائیڈن کے بارے میں اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہے۔ اگر صدر بائیڈن کے اختیارات سلب کر لیے جاتے ہیں تو ایوانِ نمائندگان کے اسپیکرز قائم مقام صدر بن جائیں گے۔ انہیں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ا سپیکرز کو ایک دستخط شدہ خط بھیجنا ہوگا جس میں صدر کو حکومت کے لیے نااہل یا پھر اپنے عہدے کی ذمہ داریاں اور اختیارات کے استعمال سے معذور قرار دیا جائے گا۔ اس موقع پر نائب صدر کامیلا ہیرس خود بخود اختیارات حاصل کر لیں گی۔ صدر کو ایک تحریری ردِعمل دینے کی پیشکش کی جاتی ہے اور اگر وہ اپنے خلاف اس الزام کو چیلنج کریں تو فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کانگریس پر آ جاتی ہے۔ صدر کو ہٹانے کے لیے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی کسی بھی ووٹنگ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، تب تک نائب صدر ہی بطور صدر کام کریں گے۔ 2020ء میںنینسی پیلوسی نے صدر ٹرمپ میں کورونا کے مرض کی تشخیص کے بعد 25 ویں ترمیم کی بنیاد پر نیا قانون متعارف کروایا تھا۔پچیسیویں ترمیم کے استعمال کے بارے میں بحث گزشتہ سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے کے بعد بھی اٹھی تھی۔ اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ صدر شاید اتنے بیمار ہوں کہ ملک نہ چلا سکیں۔ اسے دوران ایوانِ نمائندگان کی ا سپیکر نینسی پیلوسی نے 25 ویں ترمیم کی بنا پر ایک قانون متعارف کروایا تھا جس کے تحت صدر کی اپنے عہدے لیے موزونیت پرکھنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔
اگر بائیڈن کا مواخذہ ہو ا تو تاریخ میں وہ چوتھے امریکی صدر ہوں گے جن کا مواخذہ کیا جائے گا۔مواخذے کا مطلب کانگریس میں ایسے الزامات پیش کرنا ہے جن کی بنا پر صدر کا ٹرائل کیا جاسکے۔ امریکی آئین کے تحت صدر کو غداری، رشوت خوری، یا دیگر بڑے جرائم یا غلط رویوں کی بنا پر مواخذہ مکمل ہونے پر دفتر سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کوئی فوجداری کارروائی نہیں بلکہ صرف ایک سیاسی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کے دو مراحل ہوتے ہیں۔ الزامات ایوانِ نمائندگان میں پیش کیے جاتے ہیں اور اگر یہ وہاں سے منظور ہو جائیں تو انہیں ٹرائل کے لیے سینیٹ بھیجا جاتا ہے۔ صرف ٹرمپ کے سوا کسی بھی صدر کو دورانِ صدارت دو مرتبہ مواخذے کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سنگِ میل امریکی تاریخ میں آج تک عبور نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن عالمی اسٹیبلشمنٹ پہلے بھی دنیا کی تاریخ تبدیل کرتی رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مانگیں پوری کرتے ہیںیا پھرعالمی اسٹیبلشمنٹ بائیڈن کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ بات ایک مرتبہ پھر ثابت ہو جائے گی کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں بھی حکم عوام کا نہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا چلتا ہے اوررہے گا۔