بات ہے رسوائی کی

679

امریکا کے محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان کی عدلیہ کے متعلق جو منفی انداز سے منظر کشی کی گئی ہے وہ ناقابل قبول ہے اب یہ الگ موضوع ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کا عدالتی نظام آزادانہ طور پر کام کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کا عدالتوں پر نمایاں اثر ہے جس کے باعث عدالتی نظام غیر شفاف ہے۔ اس تناظر میں عدلیہ کی اہلیت اور قابلیت پر بھروسا کرنا ایک دشوار عمل ہے مگر توہین عدالت کے خوف سے عوام عدالتی نظام کی کمزوری پر اظہار خیال نہیں کرتے پاکستان کے ضابطہ قانون کے تحت رشوت ایک جرم ہے اور اس کی سزا بھی مقرر ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے ہر ادارے میں رشوت کاچلن عام ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کی کارکردگی کو بہتر سمجھا جاتا ہے مگر نچلی عدالتیں کرپٹ،نااہل، امیر،مذہبی اور سیاسی شخصیات کے دبائو میں آجاتی ہیں۔ عدالتی تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے عدالتی نظام پر حکومت کا اثر رسوخ بڑھ جاتا ہے۔ نیب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نیب کی فنڈنگ کم ہے اور ادارے کی پیشہ ورانہ قابلیت بھی نہیں ہے، نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے کاروباری شعبہ بھی متاثر ہوا ہے مگر حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ بے بنیاد ہے عدلیہ مکمل آزاد ہے اس کے فیصلے بروقت اور شفاف ہوتے ہیں، پاکستان کے عدالتی نظام کی اہلیت اور قابلیت ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے عوام ان پر بھروسا کرتے ہیں۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ملک کو ہمارے اداروں میں مداخلت کا حق نہیں۔ انہوں نے اس رپورٹ کو غیر معقول اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ادارے بشمول عدلیہ اندرونی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن اس طرح کی تنقید یا تدارک کے الزامات اور احتیاطی تدابیر صرف آئین پاکستان کے تحت ہی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے بجاطور پر درست کہا ہے کہ پاکستان کلائنٹ ریاست نہیں۔ لہٰذا پاکستان اور اس کے اداروں کو تضحیک کا ہدف نہیں بنایا جاسکتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان حکومتی معاملات میں امریکا کی بہت سی ہدایات پر عمل کرتا ہے تو عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں اعتراضات پر اعتراض کیوں؟ لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا پاکستان کے اداروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا بالفاظ دیگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے پاکستان کے داخلی امور پر غور ہی نہیں کیا۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ مذکورہ رپورٹ سنی سنائی باتوں پر مرتب کی گئی ہے کیونکہ پاکستان کی عدلیہ دنیا کی کسی بھی عدلیہ سے زیادہ آزاد ہے اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ اس کی آزادی میں کوئی مداخلت نہیں کرتا ۔
رپورٹ میں نچلی عدالتوں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ امریکی محکمہ خارجہ کی لاعلمی اور بے خبری کی دلیل ہے، نچلی عدالتوں میں پیشی در پیشی کا کھیل جج اور وکیل کی مرضی کے تابع ہوتا ہے مگر دوسری پیشی کے لیے دوسروں کا دست نگر نہیں بنایا جاتا جبکہ اعلیٰ عدالتوں میں پیشی منسوخ کر کے یا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا کر غیر معینہ مدت کے لیے مقدمہ کو اندھے کنویں میں نہیں دھکیلتی،کیونکہ پیشی منسوخ کرنا یا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسانا نچلی عدالتوں کا شیوہ نہیں، مگر اعلیٰ عدالتیں پیشی منسوخ کر کے یا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا کر بد عنوانی کا راستہ ہموار کرتی ہیں کیونکہ اگلی پیشی طلب کرنے پر کہا جاتا ہے کہ جسٹس صاحب کا حکم ہے وہی مقدمات پیش کیے جائیں جن کی پیشی ان کے دست مبارک نے دی ہے۔
یوں مقدمات کی پیشی کے لیے منت سماجت اور دیگر ذرائع بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ورنہ۔۔۔۔۔ پیشی کئی کئی برس تک نہیں ملتی ،سوال یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتیں پیشی منسوخ کر کے یا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا کر مقدمات کو اندھے کنویں میں کیوں دھکیل دیتی ہیں اوراگر کوئی سائل اس اندھے کنویںمیں جھانکنے کی کوشش کرے تو اس کی بصارت ہی نہیں بلکہ بصیرت بھی چھین لی جاتی ہے مگر نظام عدل میں ایسا کوئی میکنزم نہیں جو اعلیٰ عدالتوں کے اس اذیت ناک رویہ پر ایکشن لے سکے۔ اگر امریکا کے محکمہ خارجہ نے پاکستان کے عدالتی نظام پر دیانتداری سے غور کیا ہوتا اور حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کیا ہوتا تو ایسی ناقص اور نامعقول رپورٹ مرتب ہی نہ کرتا اسے تو اس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کہ پاکستان کی عدالتیں ایسے مقدمات کی بھی بڑی دلجمعی سے سماعت کرتی ہیں جو بے بنیاد اور جعل سازی پر مبنی ہوتے ہیں حالانکہ دنیا کی کوئی بھی عدالت ثبوت کے بغیر کسی بھی مقدمہ کی سماعت نہیں کرتی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس دل آزاری کا اعتراف بھی کھلے دل سے کیا جاتا ہے۔ جسٹس جواد الحسن کاارشاد گرامی ہے کہ بلا ثبوت کسی مقدمہ کی سماعت نہ انصافی کی بدترین اور مکروہ ترین صورت ہے سوال یہ ہے کہ اس صورت گری کا ذمہ دار کون ہے اور اس کے سد باب کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ کے بارے میں حکومت کا یہ کہنا کہ یہ غیر معقول اور ناقابل قبول ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص گڑ تو شوق سے کھائے مگر گلگلوںسے پرہیز کرے۔