امریکا دوحا معاہدے کی اعلانیہ خلاف ورزی کر رہا ہے

285

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی فضائیہ، جو دیگر غیر ملکی افواج کے ہمراہ افغانستان سے انخلا مکمل کرنے والی ہے، نے گزشتہ شب افغان سیکیورٹی فورسز کو فضائی مدد فراہم کر تے ہو ئے ۔ افغانستان کے شہر قندھار کے مضافات میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ فضائی حملے ملک کے جنوبی شہر قندھار کے مضافات میں کیے گئے تھے جس میں ان کے 3 جنگجو مارے گئے جبکہ 2 گاڑیاں تباہ ہوئیں یہ دونوں گاڑیاں امریکا ہی کی تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان فضائی حملوں کی تصدیق کرتے ہیں اور ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ دوحا میں ہونے والے امن معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اگر انہوں نے مزید حملے کیے تو نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے متعدد مرتبہ اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ ان کے انخلا کے بعد افغان سیکورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ کریں گی اور جہاں ضرروت ہوئی امریکی فورسز ان کو مدد فراہم کریں گی لیکن دوحا معاہدے کے تحت طالبان کے خلاف امریکا حملہ نہ کر نے کا پابند جس کی امریکا کے مطابق وہ مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے ۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روسی خبر رساں ادارے ’’آر آئی اے نووستی‘‘ کو بتایا کہ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران سے متصل سرحدوں پر تقریباً 90 فیصد تک ان کا کنٹرول ہے لیکن ان کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکتی۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکی حملے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان نے تاجکستان کی 90فیصد سرحدی علاقے پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا ہے اور امریکا یہاں بھارت اور تاجکستان کے مشترکہ ایئر بیس کو استعمال کر نے کی کشش کر رہا ہے۔ ْامریکا کے چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارک میلی نے کہا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز کے پاس وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہر قسم کی جنگ لڑ سکیں اور اپنے ملک کا دفاع کرسکیں جبکہ امریکی صدر اور سیکرٹری دفاع کی ہدایات کے مطابق ہم جہاں ضرورت پڑی افغان سیکورٹی فورسز کو مدد فراہم کرتے رہیں گے۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے ملک کے 90 فیصد سرحدی علاقوں پر قبضے کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے افغان حکومتی عہدیداروں نے اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امین کا کہنا تھا کہ ‘یہ بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ یاد رہے کہ طالبان اور افغان حکومت دونوں ہی کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ گزشتہ روز طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک تاجکستان، ایران، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ منسلک سرحدوں پر 90 فیصد کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ جس پر رد عمل دیتے ہوئے افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان نے اصرار کیا کہ افغان فورسز کے پاس ملک کے بیشتر حصے کا کنٹرول موجود ہے اور وہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود اہم شہروں اور ہائی ویز کا کنٹرول بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو دیے گئے۔ ایک انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین جو مذاکرات کرنے والے گروہ کے رکن بھی ہیں، نے طالبان کے مؤقف کی نشاندہی کی کہ ملک میں آگے کیا ہوسکتا ہے۔ سہیل شاہین نے کہا کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور فریقین کی جانب سے قابل قبول مذاکرات کے بعد نئی حکومت کابل میں قائم ہوجائے گی تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔’’وہ مفاہمت نہیں چاہتے مگر چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ لہٰذا ہم اسی فارمولے کو دہرانا نہیں چاہتے۔ تاہم انہوں نے اشرف غنی کی مستقل حکمرانی پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور انہیں جنگی راہب قرار دیا اور ان پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے عیدالاضحی کے اسلامی دن کے روز بھی تقریر کے دوران طالبان کے خلاف کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔سہیل شاہین نے اشرف غنی کے حکومت کرنے کے حق کو مسترد کرتے ہوئے 2019 ء کے انتخابات میں سامنے آنے والے بڑے فراڈ کی نشاندہی کی۔
یاد رہے کہ اس انتخاب میں اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبد اللہ دونوں نے اپنی جیت ظاہر کرتے ہوئے خود کو صدر قرار دیا تھا، بعد ازاں ایک معاہدے کے بعد اب عبداللہ عبداللہ حکومت میں دوسرے نمبر پر ہیں اور مصالحتی کونسل کے سربراہ ہیں۔واضح رہے کہ اشرف غنی اکثر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اس وقت تک عہدے پر رہیں گے جب تک نئے انتخابات اگلی حکومت کا تعین نہیں کردیتے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں عبداللہ عبداللہ نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحا میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی سربراہی کی تھی۔
امریکا تاجکستان میں بھارت کی مدد سے اپنے آرمی بیس کومضبوط بنانے میں مصروف ہے تاکہ وہاں سے طالبان پر ہوائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھ سکے ۔اس کی واحد وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ صدر اشرف غنی اور پاکستان دشمن امراللہ صالح کا تعلق بھی تاجکستان سے ہے اور ماضی میں بھی یہا ں سے طالبان کے خلاف کارروائی ہوتی رہی ہے۔ اسی خدشے کی وجہ سے طالبان تاجکستان کی سر حد پر خصوصی توجہ دے رہے ہیںاور یہا ں اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پورے کھیل میں امریکا ایک ایسا زخمی پرندہ بن چکا ہے جس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے وہ اپنی پر واز کو بلند کرے یا خاموشی سے بیٹھ جائے ۔