امریکی غلامی کا طوق اُتارنا ہوگا

284

دنیا میں سپرپاورکے لیے دفاعی صلاحیت کامضبوط ہوناضروری توہے مگرسب سے اہم نہیں، کیونکہ معاشی ترقی واستحکام کے بغیر کوئی بھی ریاست سپرپاورکی حیثیت حاصل نہیں کرسکتی اس کی وجہ اس کی دفاعی طاقت نہیں بلکہ اس کی مضبوط اقتصادیات ہوتی ہیں۔ جب سوویت جنگ کی وجہ سے روس کی معیشت تباہ ہوئی تونہ صرف روس کمزورہوابلکہ تحلیل بھی ہوگیا۔
اس وقت خطے میں چین ہرلحاظ سے دنیاکی نئی طاقت بننے کے لیے تیار ہے۔ معاشی سونامی آنے کے بعد امریکا کے حالات ایسے تھے کہ وہ اپنے اداروں کوتنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں رہاتھا، جس کے بعدپس پردہ اسے حکومت کے معاملات چلانے کے لیے صہیونی سرمایہ کاروں اورچین سے رقم ادھارلینی پڑی جس کی تفصیلات وقفے وقفے سے منظرعام پرآرہی ہیں۔ امریکاکی اندرونی معیشت چین کے رحم وکرم پرہے کیونکہ چین نے امریکا کوادھاردینے کے ساتھ وہاں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔چین چاہتاہے کہ اب عالمی تجارت کارخ تبدیل ہوناچاہیے جس کے لیے منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک اور توانائی کے ذخائررکھنے والے ممالک متفقہ طور پرڈالر پر عدم اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ چین عالمی تجارت میں ’’چینی ین‘‘ کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی مصنوعات کی امریکامیں فروخت کے بدلے چینی حکومت رقم ڈالرکے بجائے اپنی کرنسی میں حاصل کررہی ہے۔ اس حوالے سے چینی منصوبہ ساز اور دانشور مسلسل صدر شی جن پنگ کوبتارہے ہیں کہ ماضی کی بڑی بڑی طاقتوں کازوال کیسے وقوع پذیرہواہے،وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے ماضی کی سپرپاورپرایک ایساوقت آیاکہ دنیاکو کنٹرول کرنے کے بجائے وہ اپنے استحکام اوربقاکی جنگ لڑنے پرمجبورہوگئیں۔ چین کے دانشوروں نے شی جن پنگ کویہ باورکروایا ہے کہ جدیددورمیں دنیاکی سپرپاوربننے کے لیے سب سے پہلے عالمی اقتصادیات پردسترس حاصل کرناہوگی اوروہ اس وقت

ہی ممکن ہوگا جب عالمی کرنسی چینی ین ہوگاجس کے لیے ڈالرکوزوال پذیرہوناہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی تجارتی میدان میں اب ڈالراورچینی ین مدمقابل آچکے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیاکی اقتصادیات برطانیہ کے ہاتھ میں تھی یہی وجہ تھی کہ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا کیونکہ ’پاؤنڈ ‘ کو عالمی کرنسی کامقام حاصل تھا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعدامریکاسپرپاوربن کرسامنے آیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی تجارت میں ڈالرنے برطانوی پاؤنڈکی جگہ لے لی تھی۔2008کے بعدسے ڈالرکی قدرمیں کمی اور کمزوری دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میںچینی ین مستحکم اورمضبوط ہورہاہے۔چینی ین اب عالمی مارکیٹ میں قابل بھروسا کرنسی سمجھی جارہی ہے۔
چین کی معیشت کی مضبوطی کے بعداب دنیاکے بڑے بڑے صہیونی گروپ مثال کے طورپرسٹی گروپ، گولڈمین، روتھ شیلڈ اور صہیونی بینکروں نے شنگھائی کارخ کرلیاہے،جس کی وجہ سے واشنگٹن کے بجائے اب شنگھائی عالمی تجارت کامرکزبن چکاہے اورچین نے معاشی میدان میں امریکاکوشکست سے دوچار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکامیں جتنے بھی صہیونی صنعتکاراور سرمایہ کارہیں وہ اپنی اشیاکوسب سے پہلے چین بھیجتے ہیںجن میں گولڈمین گروپ اورسٹی گروپ قابل ذکرہیں۔ معاشی بحران کی وجہ سے امریکامیں بیروزگاری بھی غیرمعمولی حدتک بڑھ چکی ہے۔امریکامیں پڑھالکھاطبقہ اب چینی کمپنیوں میں کام کوترجیح دے رہاہے، لہٰذا امریکاکے پڑھے لکھے نوجوان جن میں آئی ٹی اسپیشلسٹ،سائنس دان، کمپیوٹرپروگرامراورانجینئروں کی بڑی تعداد، چینی کمپنیوں میں کام کررہی ہے۔عالمی ماہراقتصادیات اپنے تجزیوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی اقتصادیات کامرکزامریکاکے بجائے اب ایشیامنتقل ہوچکاہے اور ایشیامیں شنگھائی اس کامرکزماناجاتاہے جس کی سب سے بڑی مثال امریکاکے صہیونی بینکنگ سسٹم کاتباہ ہوناہے جس کی وجہ سے امریکامعاشی بحران کاشکارہوا۔
عالمی اقتصادیات پرگہری نظررکھنے والے معروف رسالے اکانومسٹ میں مضمون شائع ہواتھاکہ بہت جلدچین دنیاکی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن کرسامنے آئے گا۔جس کی وجہ اس تجزیے میں یہ بتائی گئی تھی کہ معاشی بحران کی وجہ امریکی بینکوں کادیوالیہ ہوناہے۔چین معیشت کے ہرمیدان میں امریکاکوپیچھے چھوڑچکاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکامیں سب سے زیادہ آئی ٹی مصنوعات،الیکٹرانکس مصنوعات،گارمنٹس اورافرادی قوت چین بھیج رہاہے۔آٹوموبائل انڈسٹری جس کادارومدارعالمی سرمایہ پرہوتاہے،بھی چین کی طرف دیکھ رہی ہے۔اب چین میں بیرونی سرمایہ کاری بھی دنیامیں سب سے زیادہ ہورہی ہے کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں کونفع کی شرح یورپ کی نسبت چین سے زیادہ حاصل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے امریکاکے ساتھ یورپ بھی تذبذب کاشکارنظرآتاہے۔ایک اندازے کے مطابق نفع کی شرح چین میں یورپ کے مقابلے میں دوگنی ہے جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں نے مغرب اورامریکاکے بجائے چین کارخ کرلیاہے۔ایشیاکاعالمی اقتصادیات کامرکزبننے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
چین نے اپنی دفاعی صلاحیت میں بھی غیرمعمولی اضافہ کرلیاہے۔ چین نے اب پہلی باراپنی فوجیں سرحدوں سے باہربھیجناشروع کردی ہیں اوراپنے ہمسایہ ممالک جنوبی کوریااور جاپان جوکہ اس خطے میں امریکاکے سب سے اہم اتحادی سمجھے جاتے ہیں،پر بھی اپنادبدبہ قائم کرلیاہے۔ چین نے ایسی فوج ترتیب دے لی ہے جوکسی بھی وقت دنیاکے کسی بھی ملک میں آپریٹ کرسکتی ہے جسے چین نے ماڈرن ملٹری کانام دیاہے۔کہاجاتاہے کہ چینی ماڈرن ملٹری کی طاقت یورپ کے تمام ممالک کی مشترکہ فوجی کمانڈ ناٹو کے برابرہے جس کاعندیہ مارچ 2008 میں چینی صدرنے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے دیاتھا جس میں انہوں نے کہاتھاکہ’’چینی فوج کوعلاقائی جنگوں کوجدیدترین طریقوں سے جیتنے کے لیے اپنی صلاحیت کوبہتربناناہوگا‘‘۔
29ستمبر2008کولندن کانفرنس میں مغربی طاقتوں نے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کااندازہ اس اندازمیں لگایاتھا کہ چین کی ماڈرن ملٹری دنیامیں کہیں بھی آپریشن کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے اوریہ فوج یورپ کے کسی بھی ملک سے بہترہے اورچین نے فضامیں موجودجنگی جہازوں کوبغیرلینڈکرائے تیل کی سپلائی مہیاکرنے والی ٹیکنالوجی بھی حاصل کرلی ہے جس کی وجہ سے چین کی دفاعی طاقت میں کئی گنازیادہ اضافہ ہوچکاہے۔
چین کی دفاعی صلاحیت کا دار و مدار اس کی اقتصادیات پرہے۔اقتصادی لحاظ سے چین سپرپاوربننے کے قریب ہے،یہی وجہ ہے کہ اب دفاعی میدان میں بھی اس کاکوئی ثانی نہیں ہے۔چین کودفاعی طاقت بنانے میں روس نے کلیدی کرداراداکیاہے جبکہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعدروس کی معیشت دیوالیہ ہوچکی تھی،جس کومضبوط کرنے میں چین نے کلیدی رول اداکیاہے۔مئی2008 میں روس اورچین کے مابین جوہری معاہدہ طے پایاتھاجس کی روسے روس چین میں12ایٹمی ری ایکٹرلگائے گاجس کے بدلے چین نے ڈیڑھ بلین ڈالرروس کواداکیے۔یہ چین کی ہی بدولت ہواہے کہ آج روس امریکاکے ساتھ برابری کی بنیادوں پربات چیت کر رہاہے۔افریقامیں چین کی غیرمعمولی سرمایہ کاری نے بھی امریکاکی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔واضح رہے کہ امریکاکی اقتصادیات کادارومداراسلحہ کی صنعت پرہے جبکہ چین کی معیشت کادارومدارٹیکنالوجی،افرادی قوت، گارمنٹس، اسلحہ اور تیل پرہے۔امریکااب چین کے مقابل اقتصادی لحاظ سے آنے کے قابل نہیں رہاکیونکہ چین اگرامریکامیں سرمایہ کاری روک دے تو امریکا کادیوالیہ ہونایقینی ہے۔
آج کل عالمی اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھا کا دارومدار ڈالرکے بجائے ’’چینی ین‘‘ پرہے۔اس حقیقت کو امریکا تسلیم کرچکاہے۔ایک وہ دورتھاجب پوری دنیاکی اقتصادیات ڈالرکی قدرپرمنحصرتھی لیکن اب جاپان،شام، ایران،لیبیا،روس،ارجنٹائن،برازیل،وینزویلا، چین اورلاطینی امریکاکی12ریاستوں نے ڈالرکے بجائے اپنی اپنی کرنسی میں عالمی تجارت شروع کردی ہے۔ امریکا میں بیٹھے اقتصادی ماہرین اب یہ لکھ رہے ہیں کہ ڈالرکادورختم ہوچکاہے جسے ثابت کرنے کے لیے وہ بے شمارمثالیں دیتے ہیں۔آج ایران، تھائی لینڈکوتیل فروخت کرتاہے،ایران تھائی لینڈ سے تیل کے بدلے ڈالرنہیں بلکہ چاول لے رہاہے۔روس اورچین اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت کررہے ہیں۔تھائی لینڈکے ڈپٹی پرائم منسٹرنے اپنے ایک انٹرویومیں بتایاتھاکہ تھائی حکومت نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنامرکزی بینک تھائی لینڈمیں بنائیں کیونکہ چینی ین دنیاکی مضبوط ترین کرنسی بن چکی ہے۔
امریکا کے اپنے معروف جریدے وال اسٹریٹ جنر ل میں شائع ہواتھاکہ چین عالمی اقتصادیات میں امریکاکی جگہ لینے کے لیے تیار ہے۔ 2009میں برازیل اورچین نے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کا آغاز کردیاتھا جوکہ امریکی معیشت کے لیے سب سے بڑادھچکاثابت ہوا کیونکہ امریکا کے ہمسایہ ممالک لاطینی امریکاکے بلاک نے بھی ڈالرکے بجائے عالمی تجارت کے لیے نئی کرنسی رائج کرنے کا اعلان کررکھاہے۔ چین کی جی ڈی پی کی شرح امریکاسے کئی گناہ زیادہ ہوچکی ہے اوراس کابجٹ ڈیفی سٹ (خسارہ) بہت ہی تھوڑاہے جو کہ چین کی ترقی کارازہے۔جون2009میں معروف معاشی ماہرجارج سورس نے معروف رسالے فنانشل ٹائمزکوانٹرویودیتے ہوئے کہاتھاکہ چین جتنی تیزی سے عالمی اقتصادیات پراپنااثرقائم کررہاہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔برطانوی جریدے ٹیلی گراف میں جنوری2011میں ایک مضمون شائع ہواجس میں یہ انکشاف کیاگیاکہ چین کے دوسرے بڑے بینک نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیاتھاکہ وہ ڈالرکے بجائے چینی ین میں بانڈچھاپے،چینی حکومت کی جانب سے ایسا مطالبہ چین کی بالادستی کی عکاسی کرتا ہے ،امریکااپنی معیشت کی بقاکے لیے چین کوناراض کرنے کامتحمل نہیں ہو سکتا۔
برازیل،روس،بھارت اورچین نے مشترکہ تجارتی اتحادبنارکھاہے جس کو’’بی آرآئی سی‘‘کانام دیاگیاہے جس نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیاکہ وہ ڈالر پر انحصار کرنے کے بجائے ڈالرکے متبادل کرنسی میں تجارت کو فروغ دیں گے اورڈالرکے بجائے چینی ین کو بھی اہمیت دی جاسکتی ہے۔یہ ممالک اس وقت82ریلین ڈالرکے ریزرورکھتے ہیں۔ایک طرف ایشیاکوچین کی مضبوط اورمستحکم معیشت کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کاگڑھ سمجھاجارہاہے،دوسری جانب امریکا اورمغرب نے ایشیا کومیدانِ جنگ بنارکھاہے۔ایشیاکومیدانِ جنگ بنانے کامقصدایشیاکومعاشی لحاظ سے اپنے تابع رکھناہے تاکہ ایشیائی ممالک ترقی نہ کرسکیں اورمعیشت کی بحالی کے لیے انہیں یورپ اورامریکاکی جانب دیکھناپڑے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایشیاکومیدان جنگ بنانے کاایک مقصدعالمی اقتصادیات کے مرکزکودوبارہ مغرب اورامریکامنتقل کرنا ہے۔امریکاکی گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے امریکا کے حلیف ممالک کی ساکھ بھی داؤپرلگ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے اپنے دوست ممالک بھی عالمی تجارت کے لیے ڈالر کے متبادل ذرائع تلاش کررہے ہیں لیکن کیاہم نے یہ سوچا کہ ہمارے ہاں آئی ایم ایف کوپاکستان کے مالیاتی نظام کواپنے قبضے اوراپنے احکام کی تابع کرنے کے لیے موجودہ آئینی ترمیم برائے اسٹیٹ بینک کو کیوں منظورکروانے کی ضرورت پڑی ہے۔ خطے میں امریکا،اسرائیل اور بھارت جیسی ناپاک اورمکروہ تثلیث کوکسی بھی صورت میں سی پیک گوارا نہیں کیونکہ موجودہ دورمیں سپرپاورکاتاج اس کے سرپرسجے گاجوعالمی معاشی منڈیوں میں کاروباری مسابقت حاصل کرے گااورزمینی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ سی پیک کی تکمیل ہی’’ون روڈون بیلٹ‘‘کی کامیابی کی ضامن ہے جس سے چینی تجارت کونہ صرف ناقابل یقین حدتک فروغ ملے گابلکہ وہ معاشی منڈیوں کی بدولت ہی نہ صرف ایشیاسے بلکہ یورپ میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرلے گاجس سے دنیابھرکے ممالک کاچین کے ساتھ دفاعی نظام کااشتراک بھی مزیدمضبوط ہوگااورہزاروں میل دوربیٹھاامریکااپنے کمزورمعاشی نظام کی بدولت اپنے اخراجات کے بوجھ تلے دب کرلاغر ہو جائے گا اوراس وقت بظاہرچندامریکی ریاستوں میں جوتھنک ٹینک یونین سے علیحدگی کاعندیہ دے رہے ہیں،وقت کے ساتھ ساتھ ان کے بیانیہ کونہ صرف تقویت ملے گی بلکہ مزیدامریکی ریاستیں بھی علیحدگی کامطالبہ کریں گے۔یہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکامیں نسلی منافرت کوجن بھی خطرناک حدتک مصنوعی طریقوں سے دبایاجارہاہے وگرنہ سیاہ فام امریکی اوربعض ریاستوں میں امریکی اسپینش آبادیاں بھِی موجودہ امریکی نظام اورسسٹم سے گلوخلاصی چاہتی ہیں۔ ان حالات میں دنیابھرمیں امریکی جارحیت کے سبب جو نفرت کاسیلاب اپنے کنارے توڑنے کے درپے ہے،وہ امریکی سپرپاورکے غرورکوخاک میں ملانے کے لیے کافی ہوگا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم امریکاکی غلامی کے طوق سے جس قدرجلدچھٹکارہ پالیں توپاکستان کی قسمت سنورسکتی ہے۔