یہ عسکری نہیں عظیم نظریاتی فتح بھی ہے (پہلی قسط)

364

اس حقیقت کو جاننے کے لئے کسی جائزے کی ضرورت نہیں کہ آج دنیا بھر میں سب سے اہم موضوع طا لبان ہیں ۔آج دنیا کے لئے ممکن نہیں کہ وہ طالبان کی حریت پسندی کا انکار کرسکے ۔افغان مجا ہدین تین دہائیاں دنیا کی سپرپاورز سے لڑے اور انھیں شکست سے دوچار کیا۔وہ انسانی تاریخ کے اس منفرد کردار کا تسلسل ہیں جس کی طاقت اور قوت کا منبع ایمان ہے ۔ان کا ایمان ،یقین اور نظریہ حیات اسلام ہے ۔ایک چینی دانشور نے کہاتھا’’انقلابیوں سے اس وقت تک ٹکرنہ لوجب تک تمہیں یہ یقین نہ ہوکہ تمہارے نظریات ان سے زیادہ مضبوط ہیں‘‘۔نظریات یا آئیڈیوجی کا ماخذ یاتوغیر معمولی انسانی ذہانت ہوسکتی ہے یا پھر اللہ سبحانہ وتعالی کی وحی ۔مغرب کائنات ،انسان اور زندگی کے بارے میں جس آئیڈیوجی کودرست سمجھتا ہے، جس کے مطابق زندگی گزاررہا ہے، وہ سرمایہ داریت اور سرمایہ دارانہ نظام ہے ۔جو ذہن انسانی کی پیداوار ہے ۔ یہ نظام انسانی عقل سے پیدا ہوا ہے جو کہ محدود ہے ۔تمام کا ئنات کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔اسلام کی بنیاد اور اساس اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود پر یقین ہے ۔اسلام میں معاشرے کی حفاظت کے لیے بلند مقاصدانسان کے اپنے وضع کردہ نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی وحی سے متعین کردہ ہیں۔اسلام میں اللہ سبحانہ وتعالی ہی انسان کے تمام معاملات منظم کرتے ہیں۔
سرمایہ داریت کی حامل ریاستیں دنیا میں موجود ہیں لیکن چونکہ اسلام کی آئیڈیوجی کی حامل کوئی مملکت کرہ ارض پر موجود نہیںاور وہ ریاستیں جو اسلامی ریاستیں کہلاتی ہیں اسلام وہاں بھی بطور نظام نافذ نہیں اور ان مملکتوں پر ایسے حکمران برسراقتدار ہیں جن کا اسلام سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ،جو مغرب کے ایجنٹ ہیں ،اپنے ہرہر عمل سے اسلام کو پا مال کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اس لیے یہ باور کرلیا گیا کہ اسلا م موجودہ عہد کے تقاضوں کو نبھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔اسلام کے افکار اور نظریات اب قابل عمل نہیں ہیں ۔اسلام ایک ناکام نظام ہے ۔طالبان نے دنیا کو دکھا دیا کہ آئو اور دیکھوسرمایہ داریت کے مقابل اسلام ہی فاتح ہے ۔ اسلام ہی حقیقی اور سچائی پر مبنی نظریہ حیات ہے ۔آئو اور دیکھو تمہارے نظریہ حیات اور ٹیکنا لوجی کے مقابل اسلام ہی کا میاب اور سر بلند ہے ۔
چودہ سو برس پہلے دنیا کی کمزور ترین قوم عربوں نے اسلام کے نظریہ حیات پر عمل کیا تو اسلام نے انھیں وہ قوت دی کہ ستائیس برسوں میں انھوں نے اس وقت کی دوسپرپاورز قیصر اور کسری کو شکست دے دی ۔آج وہ طالبان جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ امریکا صرف دو ہفتے میں انھیں تر نوالے کی طرح نگل جا ئے گا اسلام پر ڈٹے رہے تو محض دس برس میں سوویت یونین اور بیس برسوں میں امریکا، عصر حاضر کی دو بڑی قوتوں کو بدترین شکست سے دوچار کردیا۔امریکا اپنے تمام معاشی ،انسانی اور مادی وسائل اسلام کے خلاف جھونک رہا ہے لیکن اسلام کے مقابل وہ ڈوبتا ہی جارہا ہے۔
میرے آقا عالی مرتبت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے فکری اور سیاسی اور پھر اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے جانے کے لیے جہاد کی صورت زبردست دعوتی اور عسکری جدوجہد کی ۔کفار نے بھی اسلام کے خلاف کبھی فکری اور ثقافتی حربے آزمائے اور کبھی جنگ کا راستہ اپنا یا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب کو اسلام کے خلاف پہلی بڑی کا میابی ملی جب انھوں نے خلافت کو ختم کردیا۔اسلامی سرزمین کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیااور ان ریاستوں میں کفر کے احکامات نافذ کردیے ۔اسلام کو بطور سیاسی عقیدہ ختم کرنے کے لئے انھوں نے دین اور دنیا کی جدائی پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو بطور نظام نافذ کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ سرمایہ دارانہ نظام اسلام کی جگہ لے لے ۔اس مقصد کے لئے انھوں نے جمہوریت ،انسانی حقوق ،آزادی ، اور وطنیت جیسے تصورات کو فروغ دیا اور انھیں ہی انسانیت کی فلاح کا ضامن قراردیا ۔طالبان ایک ایک کرکے مغرب کے یہ تمام بت گراتے چلے جارہے ہیں۔
امریکا نے افغانستان میں ایک جمہوری حکومت قائم کی ،اسے افغانیوں کے تمام مسائل کا حل قراردیا ،دنیا نے اس حکومت کو تسلیم کرلیا لیکن طا لبان نے وقت کی ایک ساعت کے لئے بھی اس دیواستبداد کو تسلیم نہیں کیا جسے مغرب آزادی کی نیلم پری قراردیتا ہے۔جمہوریت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی وہ بساط ہے جس کی خوفناکیوں کا عوام تو کیا علماء کرام بھی ادراک نہ کرسکے لیکن ملا عمر ؒنے جمہوریت کے مقابل فاران کی چوٹیوں سے اٹھنے والی دعوت کا علم سنبھالا اور 1996میں امارات اسلامیہ قائم کرکے امت مسلمہ کو وہ سبق یاددلایا جسے وہ فراموش کرچکی تھی ۔ملا عمرؒنے اسلامی حکومت قائم کرکے دنیاکو دکھادیا کہ معاشرے میں امن وانصاف کا معاملہ ہو یا عورتوں کی عزت اور حقوق کا،منشیات کا عالمی مسئلہ ہو یا پھر اخلاق کے اعلی تقاضے ان سب مسائل کا حل اسلامی شریعت کے پاس ہے ۔
ملا عمر ؒ نے اپنے عہد اقتدار میں افغانستان میں اسلام کا نفاذ کیا تو دنیا چیخ اٹھی اور اسامہ بن لادن کے قیام کا بہانہ بنا کر امریکا چا لیس سے زائد ممالک سمیت افغانستان پر ٹوٹ پڑاتھا۔آج دنیا کو علم ہے کہ افغانستان میں کامل فتح کے بعد طالبان نے افغانستان میں اسلام کو نا فذ کرنا ہے لیکن اس کے باوجو د برطانیہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے ۔دیگر یورپی ممالک بھی اسی روش کو اختیار کرنے پر مائل ہیں۔امریکا تسلیم کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور اس کے اشارے کے منتظر تمام اسلامی ممالک بھی۔روس چین بھارت اور ایران طالبان سے رابطے استوار کررہے ہیں ۔حالانکہ پہلے ملاعمر کی امارات اسلامیہ کو صرف پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔
طالبان کی عسکری جدوجہد کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیاگیا۔ ان کے جہاد کو دہشت گردی کہا گیا لیکن طا لبان کبھی جہاد سے دستبردار نہیں ہوئے ۔وہ مغرب کی عسکری صلاحیتوں سے مرعوب ہوئے اور نہ ان کے پروپیگنڈے سے گھبراکر جہاد سے کنارہ کش ہوئے۔انسانی تمدن کی بنیاد انسانی جان اور اس کے خون کے احترام پر مبنی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تہذیب وتمدن کا علمبردا ر مغرب اپنے دشمنوں خصوصاََمسلمانوں کو انسان سمجھتا ہی کہاں ہے ؟مغرب کی نظر میں مسلمانوں کی جان کی کوئی قیمت ہے اور نہ اس کااحترام۔اسلام جان کے بدلے جان لینے کا علمبردار ہے ۔وہ جان مغرب اور امریکا کی ہو یا دنیا کے غریب ترین ملک کے کسی افغان باشندے کی ۔امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان پر قبضہ کرکے مسلمانوں کا خون بہاکر اپنی جان کی حرمت کا حق کھودیا تھا۔اب وہ جسم انسانی کے اس کینسرزدہ حصے کی مانند ہیں جس کا کاٹ دیا جانا ہی جسم کی بقا کے لئے لازم ہے ۔اسلام نے اسی لئے قصاص کو حیات سے تعبیر کیا۔اس لازمی فریضے کو بجا لانے کا نام جہاد ہے ۔
1924ء میں خلافت کے خاتمے کے بعد آج تک مسلمانوں نے کوئی بڑی عسکری کا میابی حاصل نہیں کی سوائے افغان مجا ہدین کی کامیا بیوںکے ۔جنھوں نے اسلام کی عظمت کے احیا ء کے لئے جہاد کیا اور پہلے روس اورآج امریکا اور مغرب کو خاک چا ٹنے پر مجبور کردیا ۔انھوں نے فضائے بدر پیدا کرکے دکھادی ۔دنیا کو بتادیاکہ جہادکے بغیر شروفساد کا خاتمہ ممکن ہے اور نہ امریکا اور روس جیسے ظالموں کو ان کی حدود میں واپس جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔امریکا کے حملے کے وقت امریکا کی تاریخی اور بے پناہ جنگی مشینری کے مقابل طالبان کے پاس نہ باقاعدہ فوج تھی اور نہ پو لیس ،نہ بحری نہ فضائی طاقت ،نہ اتحادی اور نہ ڈیزی کٹر بم اور B52طیاروںکی کارپٹ بمباری کی طاقت ۔طالبان کا پاس صرف اسلام کا نظریہ حیات اور جہاد تھا۔کون کا میاب رہا؟
(جاری ہے)