پاکستان کی آزادی کہاں ہے؟

284

پاکستان اور چین نے اعلان کیا ہے کہ ہم داسو ڈیم کے واقعے کے مجرموں کو انجام تک پہنچائیں گے ۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے چین میں مل کر پاک چین اسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر اتفاق کیا اور سی پیک کی بر وقت تکمیل کا عزم کیا گیا ۔ یہ بلندیاں یقیناً کے ٹو اور ہمالیہ سے بھی بلند ہوں گی۔ داسو واقعہ ایک دہشت گردی ، حادثہ یا شر انگیزی کچھ نہ کچھ تھا لیکن اس کے فورا بعد جو کچھ ہوا وہ یہ سوال اٹھانے کے لیے کافی ہے کہ کیا پاکستان کی قیمت56ارب ڈالر ہے ۔ پاکستان فروخت ہو چکا ہے ۔ آزاد ملک ہے یا نہیں ۔ جوں ہی حادثے کی خبر آئی چین نے ڈیم پر کام بند کر دیا ۔ اپنی تحقیقاتی ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا اور ٹیم ایسے پہنچ گئی جسیے سوٹ کیس تیارکیے بیٹھی تھی ۔ تمام افسروں اور ضروری اور غیر ضروری آلات کی اسکیننگ( پتا نہیں ہوئی بھی کہ نہیں) کے بغیر پاکستان میں آ گئے اور چینی ٹیم نے تحقیقات شروع کر دی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں کوئی واقعہ ہوتا ہے پاکستانی لوگ پکڑے جاتے ہیں۔ پاکستان نے کبھی کوئی تحقیقاتی ٹیم بھیجی؟ نہیں ۔ یہی جواب ملے گا کہ بھارت سے تو تعلقات اچھے نہیں بلکہ دشمنی ہے وہ کیوں اجازت دے گا ۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب امریکا کے حلیف تھے تعلقات ہمالیہ اور چین پاکستان دوستی بھی بلندی سطح پر تھے اور سمندر سے بھی زیادہ گہرے تھے تو ڈاکٹر عافیہ کے خلاف پر اسرار بے بنیاد مقدمہ چل پڑا۔ پاکستان کی کوئی تحقیقاتی ٹیم گئی ۔ کوئی سوال پوچھا ،کوئی سفارتی یا سرکاری مراسلہ ریکارڈپر ہے کہ امریکا سے پوچھ لیا گیا ہو کہ عافیہ کا معاملہ کیا ہے ۔ ہم اس کی تحقیق کریں گے اور ہماری ٹیم بگرام اور امریکا پہنچ جاتی ۔ لیکن لگتا ہے کہ امریکا سے دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے نام پر اپنے ہی ملک کے باشندوں کے قتل عام کے عوض ملنے والی رقم اس وقت پاکستان کی آزادی کی قیمت تھی اور آج56 ارب ڈالر ہیں ۔ حادثہ تو پاکستان میں ہوا ہے۔ پاکستان تحقیقات کرے گا ۔ پاکستان نتیجہ اور معلومات اپنے حلیف اور دوست کے ساتھ شیئرکرے گا ۔ مزید اطمینان کے لیے ٹیم کو جائے وقوعہ کا دورہ کرایا جائے گا لیکن پاکستان میں اس طرح آنا جانا یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ حکومت نے ملک کی آزادی گروی رکھ دی ہے ۔ صوبوں کو سی پیک کے حصے کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ۔خدارا کچھ تو خوف کریں ۔آزادی کی قدرکریں ۔