آزاد کشمیر: الزامات کے گرد گھومتی انتخابی مہم – سید عارف بہار

284

آزادکشمیر میں انتخابی مہم آخری مراحل میں داخل ہورہی ہے۔ جوں جوں انتخابی مہم میں تیزی آتی گئی، ناخوش گوار واقعات میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ابھی تک انتخابی مہم میں تشدد کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، اور مہم زبانی توتکار تک محدود ہے۔ پتھرائو وغیرہ کے واقعات ہوتے رہے، مگر یہ انتخابی مہم میں معمول کی کارروائی ہے۔ آزاد کشمیر کی ماضی کی سیاست اس سے زیادہ سخت واقعات اور اس سے سخت زبان اور طعنہ و دشنام سے بھری پڑی ہے۔ انتخابات میں کئی لاشیں گرنے اور کراس فائر کے درمیان کئی روز تک بے گوروکفن پڑے رہنے کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے پیپلزپارٹی کے وزیراعظم چودھری مجید کو انتخابی جلسے میں’’پہاڑی بکرا‘‘ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں ہی آزادکشمیر کے ایک بڑے سیاست دان نے وفاق کی طرف سے انتخابی مہم چلانے والی خاتون کو پہاڑی لوگ اور جھاڑیوں میں لے جانے جیسی خوفناک تنبیہ کی تھی۔ یہاں کئی علاقوں سے کے ایچ خورشید اور سردار ابراہیم خان جیسے بڑے لیڈروں کی گاڑیوں کا شیشے بچاکر نکلنا کارِدارد رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں انتخابی مہم چلانے والے ایک لمبی مونچھوں والے وفاقی وزیر کو آزادکشمیر میں مقامی سیاسی حریفوں کی طرف سے سندھ کا ڈاکو خطاب دیا گیا۔ کئی بار وفاقی حکومت کی طرف سے عین انتخابات سے پہلے اپنے امیدواروں کو سائیکلوں کا تحفہ پیش کیا گیا۔ یوں بھی پہاڑی علاقے کے ووٹروں کو سائیکلوں کا کیا کرنا تھا، مگر اس کے باوجود امیدواروں نے اپنے وفاقی سرپرستوں کی طرف سے ملنے والی یہ سائیکلیں ووٹروں تک پہنچنے سے پہلے واپس راولپنڈی کی مارکیٹوں میں فروخت کردیں۔ علی امین گنڈاپور نے ایک ٹیلی فون کال میں پوچھے گئے سوال میں اپنی پارٹی کے اُن کارکنوں کو دوٹکے کا قرار دیا جو اُن پر ٹکٹوں کی فروخت کا الزام لگا رہے تھے۔ اب ٹکٹوں سے محروم رہ جانے والے یہی زخم خوردہ کارکن اس اصطلاح کو پورے کشمیر کے بارے میں ریمارکس قرار دے کر کشیدگی کا ایک نیا ماحول پیدا کررہے ہیں۔ باغ کا واقعہ بھی جس میں ایک نوجوان نے وزیر امور کشمیر کے جلسے میں جوتا اچھالا، اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ آزادکشمیر کی ماضی کی سیاست راستہ روکنے، جلائو گھیرائو، اور سنگ باری سے عبارت رہی ہے۔ علی امین گنڈاپور ماضی کے وزرائے امور کشمیر حیات ٹمن، قائم علی شاہ، فیض علی چشتی، قاسم شاہ، حنیف خان، جنرل مجید ملک،آفتاب شیرپائو، افضل خان لالہ، قمرالزمان کائرہ، برجیس طاہر کا تسلسل ہیں۔ یہاں وزیر امورکشمیر انتخابات کے نین نقش سنوارتے ہوئے امیدواروں کو کھڑا رکھنے اور بٹھانے کے لیے اُن کے گھروں اور الیکشن دفاتر میں بھی جاتے رہے ہیں۔ امورِ کشمیر سے متعلق وزرا میں کئی سخت لب ولہجے کے حامل تھے، اور کئی مرنجاں مرنج اور بردبار۔ آج کی انتخابی مہم میں کوئی انوکھا اور نیا کام نہیں ہورہا، کئی حوالوں سے آج کی اصطلاحات میں تہذیب اور شائستگی کا عنصر ماضی سے زیادہ ہے۔ شاید اس کی وجہ وڈیو کیمروں کی آمد اور حرکات وسکنات سے زبان وبیان تک سب کچھ ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے، اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی بھی اس ریکارڈ کو آگے پھیلانے اور سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے۔ ہمارے معیار اور پیمانے ہر کسی کے لیے ایک نہیں ہوتے۔ یہ لچک دار باٹ ہیں، جن کی کارگزاری کا تعلق کسی اصول سے نہیں بلکہ ترازو بردار ہاتھوں کی پسند وناپسند سے ہوتا ہے۔

اِس وقت تک تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے شخصی اور ذاتی حملے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیڈر کا لب ولہجہ کارکن اور معاشرے کا دہن اور ذہن بناتا ہے۔ لیڈر انٹ شنٹ بولے گا تو ماحول چارج ہوجائے گا۔ کشیدگی کی فضا بنے گی۔ لیڈر تحمل سے اپنی بات کرکے اپنا منشور پیش کرے گا تو اس کے مثبت اثرات ماحول اور معاشرے پر مرتب ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ کہ محض جمہوری رسم کے طور پر ہی سہی اِس بار سوائے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اپنا منشور بھی تحریری شکل میں عوام کے سامنے پیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ گویا کہ وہ پہلے ہی حالات کا رخ بھانپ چکے تھے۔ مریم اور بلاول انتخابی مہم میں عوام کو ’’عمران نامہ‘‘ سناکر چلے گئے۔ ان کی تقریریں عمران خان سے شروع ہوکر عمران خان پر ختم ہوئیں۔ مریم نواز کوہالہ پل سے آزادکشمیر کی حدود میں داخل ہوئیں تو وہ عمران عمران کا منتر پڑھ رہی تھیں۔ چھ سات دن انہوں نے آزادکشمیر کے عوام کو انتخابی تقریر کے نام پر ’’عمران نامہ‘‘ سنایا، اور جب وہ منگلا پل عبور کرکے آزاد کشمیر کی حدود سے باہر نکل گئیں تو بھی اُن کی زبان پر یہی منتر جاری تھا۔ وسطی پنجاب اور جی ٹی روڈ کے عوام کے لیے تو اس داستانِ غم میں کوئی کشش ہوسکتی ہے، مگر آزاد کشمیر کے شہری کو اس مؤقف سے قطعی سروکار نہیں۔ اس طرح کی جوشیلی تقریروں سے وقتی واہ واہ ہوگئی مگر پارٹیوں کے امیدواروں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ بلاول نے تو آزاد کشمیر کی سرزمین پر پائوں رکھتے ہی آزادکشمیر کے عوام کو ’’عمران سیریز‘‘ سنانا شروع کردی تھی۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اِس بار الیکشن ریاستی تشخص کے نعرے کے ساتھ لڑیں گے۔ مطلب واضح تھا کہ آزادکشمیر کے قوم پرستانہ جذبات کو چھیڑا جائے گا۔ ریاستی تشخص کے اس نعرے کی تشہیر غیر ریاستی جماعت اور پرچموں تلے ایک طرفہ تماشا ہی تھا۔ریاستی سیاست صرف ریاستی جماعت کے بینر تلے ہو سکتی تھی، اور وہ اپنی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کو ایک عشرہ قبل خود ہی توڑپھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کی صورت میں ایسی جماعت قائم کرچکے تھے جس کی قیادت اور فیصلہ سازی کا مرکز ومحورلاہور میں ہے۔

مریم اور بلاول کے جواب میں عمران خان نے کسی مہربان کا مشورہ مان کر جواب میں نوازشریف نامہ اور آصف زرداری نامہ نہیں سنایا، اور اس سے علی امین گنڈا پور کے اسٹائل سے پیدا ہونے والی تلخی کسی حد تک کم ہوئی۔ایسا نہیں کہ آزادکشمیر کی انتخابی فضا میں سارا تکدر علی امین گنڈا پور کی تقریروں نے بھرا ہوا تھا۔یہ پرانی روایات کا تسلسل ہے، اوراِس بار بھی مقابلۂ بدزبانی میںکوئی سیر رہا تو کوئی سوا سیر۔

(This article was first published in Friday Special)