مودی سرکار پر تنقید جرم ، اخبار کے دفتر پر چھاپا

103

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں مودی سرکار نے تنقید کرنے والے ابلاغی اداروں کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا۔ خبررساں اداروںکے مطابق بھارتی حکام نے ملک کے ایک مشہور اخبار کے دفتر پر چھاپامارا، جو مودی سرکار کے سیاہ کرتوت سامنے لانے کے حوالے سے مشہور ہے۔ دائنک بھاسکر گروپ کی نگرانی میں چلنے والے اخبار کی اشاعت 4 کروڑ سے زائد ہے۔ اخبار کے 4دفاتر پر بیک وقت چھاپہ مارا گیا، جس میں مدھیہ پردیش کا ہیڈکوارٹر بھی شامل ہے۔ حکام کی جانب سے اخبار پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا ہے،تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ روزنامہ دائنک بھاسکر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے اور حال ہی میں اخبار نے کورونا کے خلاف حکومتی ناکامی کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ ادھر ٹیکس چوری کو جواز بناکر بھارت سماچار نامی ٹی وی چینل کے خلاف بھی تفتیش شروع کی گئی ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزاد میڈیا کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات اور دھمکیاں قابل مذمت ہیں۔ دوسری جانب یورپین یونین نے روسی حکام کی جانب سے آزاد ابلاغی اداروں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی خارجہ امور کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ کہ روسی حکام نے میڈیا اور صحافیوں کے خلاف نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے،جس کے تحت انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کو غیر ملکی جاسوس اور ایک میڈیا آئوٹ لیٹ پراجیکٹ میڈیا آئی این سی کو ناپسندیدہ تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح روس کے اندر انسانی حقوق اور آزادیوں کے لیے کام کرنے والی وکلا اور صحافیوں کی تنظیم کوماندا 29 پر کام بند کرنے کے لیے غیر معمولی دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ یورپی یونین نے متنازع اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے اظہار رائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ادھر برطانوی حکومت نے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی تیاریاں شروع کردیںاور اس سلسلے میں نیا قانوی متعارف کرانے پر غور کیا جارہا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بننے والی خبروں پر صحافیوں کو 14 برس کی سزا ہوسکے گی۔ اسی طرح حکومت کی خفیہ باتیں سامنے لانے والوں پر غیر ملکی جاسوسوں والا قانون لاگو ہوگا۔ ملزم صحافیوں سے دفاع کا حق چھن جائے گا۔ خبررساں اداروں کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں اور لا کمیشن نے حکومت کی مجوزہ اصلاحات کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز پیش کردیں ہیں۔ واضح رہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی تنقیدی میڈیا ادارے ٹیکس تفتیش کاروں کی گرفت میں آچکے ہیں۔