تاجر تنظیموں کی مدد سے معاشی چیلنجز کو فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے

538

O پاکستان انجینئرنگ آئٹمز،فارما سوٹیکل،چاول،آئی ٹی،ہلال فوڈ وغیرہ کو برآمد کرنے کی بہت گنجائش ہے
O حکومت اور ایف بی آر ہمیشہ سبسڈی کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر مسائل پر بات نہیں کی جاتی، ممبر حسین موسانی
O تاجروں اور صنعتکاروں سے بغیر کسی مشاورت کے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں جو کہ سراسر ناانصافی ہے
O فلامنٹ یارن پر 2فیصد کسٹمز ڈیوٹی،2فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کم کرنے اور ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا
O ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر حیات مگوں،کے سی سی آئی کے صدر شارق وہرہ، ثاقب گڈلک،شمس الاسلام، ممبر زپائما
O محمد عثمان، خورشیدشیخ، اسلم موتن،انور عزیز،عدنان ریاض کا جسارت فورم میں خطاب

بجٹ ا ٓیا بھی اور منظور بھی ہو گیا لیکن بجٹ کی اُدھم چوکڑی سے اُٹھنے والے گر د غبار کا سلسلہ جاری اور نہیں معلوم کب یک جاری رہے گا۔ماضی میں 3سے 6ماہ تک” بجٹ کے ایس آر او ” میں تبدلی کا جاری رہتا تھا اب بھی یہی صورتحال نظر آرہی ہے ۔اس سلسلے میں جسارت نے تاجروں اور صنعتکا روں سے رابطہ کیا تو ان کے پاس جسارت فور کے لیے شکایتوں کا پورا دفتر تیار تھا جس میں اناملی کے انبار لگے ہوئے تھے ۔جسارت کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری( ایف پی سی سی آئی) کے صدر ناصر حیات مگوں نے بتایاکہ وفاقی بجٹ 2021-22 کی اناملیز کو دور کرنے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بجٹ اناملیز برائے بزنس کے لیے سلطان علی الانہ کو چیئرمین بنائے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بینکر کوبجٹ اناملیز کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا جو سمجھ سے بالاتر ہے ۔ بجٹ اناملیز کمیٹی توبنا دی گئی مگر فیصلے اجلاس سے پہلے ہی کر لیے گئے۔ ۔
ایف پی سی سی آئی ناصر حیات مگوں نے سلطان علی الانہ (ایچ بی ایل) کی سربراہی میں تشکیل دی گئی بجٹ اناملیز کمیٹی کے طلب کیے گئے اجلاس میں بتایا کہ جب فیصلے پہلے ہی کرنے ہیں تو اجلاس کیوں بلایا جاتا ہے اور بغیر کسی مشاورت کے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں جو کہ سراسر ناانصافی ہے حالانکہ اجلاس میں باہمی مشاورت فیصلے کیے جانے چاہیے۔مذکورہ کمیٹی ممبر پالیسی، ممبر کسٹمز اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے7ممبران پر مشتمل ہے اور یہ کمیٹی بغیر کسی مینڈیٹ کے منفی اقدامات کررہی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر و سینئر وائس چیئرمین پائما حنیف لاکھانی اور ایف پی سی سی آئی کی یارن قائمہ کمیٹی کے کنوینر ، وائس چیئرمین پائما فرحان اشرفی نے جسارت کو بتایا کہ بجٹ تقریر میں فلامنٹ یارن پر 2فیصد کسٹمز ڈیوٹی،2فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کم کرنے اور ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر افسوس کامرس ڈویژن کی تمام سفارشات کو نظر انداز کردیا گیا اور بجٹ اناملیز کمیٹی کی بغیر کسی مشاور ت خودساختہ سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنادیا یا جو ناقابل قبول ہے کیونکہ وعدے کے مطابق ڈیوٹیزکم نہ کرنے اورآڑ ڈی ختم نہ کرنے کی صورت میں کپڑے اور یارن پر ڈیوٹیز کی شرح یکساںہوجائے گی جس سے کپڑے کی صنعتیں بند ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ کیسکیڈنگ کے تحت 7فیصد کا فرق بھی برقرار نہیں رکھا گیا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجٹ دستاویز میںاعلان کے مطابق ڈیوٹی اسٹرکچرکو تبدیل کیا جائے تاکہ صنعتیں روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرسکتی ہیں۔پائما کے سابق مرکزی چیئرمین اور ممبر یارن قائمہ کمیٹی خورشید اے شیخ نے کہا کہ یارن بطور خام مال استعمال کرنے والے صنعتوں کوخطیر نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ کپاس کی پیداوار بہت کم ہوئی ہے۔ فائبر اور یارن دو بڑے شعبے ہیں جو ملک کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو فروغ دے سکتے ہیںاگر حکومت غیرمنصفانہ ڈیوٹیز واپس لیتی ہے توہم اپنے اہداف حاصل کرلیں گے۔ جسارت فورم سے خطاب میںمحمد عثمان نے کہا کہ نائیلون یارن اور ویسکوز یارن بڑے اہم مسائل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ منصفانہ فیصلہ کرے گی۔ ہم ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر حیات مگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ یارن اور فائبر پر زائد ٹیرف کے معاملے کو حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔سابق زونل چیئرمین پائما اور چیف پی سی ایل سی حفیظ عزیز نے کہاکہ یارن ٹریڈرز کو مختلف مراحل میں بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں کئی سالوں سے ریفنڈز بھی نہیں ملے حالانکہ برآمدات کے فروغ میں یارن کے تاجر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے ٹرن اوور ٹیکس مسلط کرنا ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ ایف بی آر ہمیشہ یارن کے تاجروں کو اندھیرے میں رکھتا ہے اور ہمیشہ ہی تاجروں کی آمدنی سے زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔کراچی چیمبر کی منیجنگ کمیٹی کے رکن اور چیئرمین لاء اینڈ آرڈرکمیٹی جنید الرحمان نے کہاکہ ہمیں کاٹن یارن اور حکومتی پالیسی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کرنا چاہیے جو لازمی طور پر کاروبار اور صنعت دوست ہونی چاہیے نیز برابری کی بنیاد پر کاروباری مواقع ملنے چاہیے۔ یارن قائمہ کمیٹی کے ممبر حسین موسانی نے کہا کہ حکومت اور ایف بی آر ہمیشہ سبسڈی کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر مسائل پر بات نہیں کی جاتی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کاٹن کے بیج کے معیار کو بہتر بنانا چاہیے جبکہ ایک اور مسئلہ معیاری کھاد اور کیڑے مار ادویات کی عدم فراہمی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر حیات مگوں بتایا کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی) اور پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن( پائما) نے وفاقی بجٹ2021-22 کی بجٹ اناملیز دور کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے
کے سی سی آئی کے صدر شارق وہرہ، سینئر نائب صدر ثاقب گڈلک، نائب صدر شمس الاسلام، ممبر زپائمامحمد عثمان، خورشیدشیخ، اسلم موتن،انور عزیز،عدنان ریاض،خرم بھراڑہ، جنید تیلی،سہیل نثار ، الطاف ہارون،جاوید خانانی، عبدالصمد گابا،انیس مانڈویا،وحید عمر،نعمان الیاس، عبداللہ نعیم،شہاب الدین پاڈیلا اوربہروز کپاڈیہ بھی شریک ہوئے۔ناصر حیات مگوں نے سینیٹ کی بجٹ اناملیز کمیٹی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جسارت فورم میں خطاب کیا ۔کے سی سی آئی کے صدر شارق وہرہ نے جسارت فورم میں بتایا کہ وفاقی بجٹ2021-22 میں یارن اور کپڑے سے متعلق اناملیز سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ کراچی چیمبر اس جدوجہد میں تاجروں کے ساتھ ہے اور ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ یارن کے شعبے کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔کے سی سی آئی یارن کے تاجروں کے ساتھ اپنا ہرممکن تعاون پیش کرے گا۔حنیف لاکھانی نے جسارت کو حنیف لاکھانی، فرحان اشرفی نے مطالبہ کیا کہ یارن پر کسٹمز ڈیوٹی7 فیصد کی جائے او3 فیصداضافی ٹیکس ختم کیا جائے ۔ اس کے علاوہ وعدے کے مطابق 8 بی کو ختم کیا جائے جبکہ کمرشل امپورٹرز اور انڈسٹریل امپورٹرز کی تفریق ختم کرتے ہوئے دونوں پر یکساں شرح کے ساتھ ٹیکس عائد کیا جائے کیونکہ یارن خام مال ہے اس کو ویلیو ایڈیڈ میں شمار نہیں کیا جاسکتا یارن بطور خام مال مینوفیکچرنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ کمرشل امپورٹرز یارن درآمد کرکے ایس یم ایز کی پیداواری سرگرمیوں کو بلارکاوٹ جاری رکھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ایس ایم ایز کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ یارن درآمد کرسکیں لہٰذا ایس ایم ایز کو بچانے کے لیے یارن کے شعبے پر ٹیکسوں میں ریلیف دیا جائے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے سابق چیئرمین اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)کے سابق سینئر نائب صدر اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کی فیڈرل کور کمیٹی کے وائس چیئر مین محمد حنیف گوہر نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر کی معیشت پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کورونا کے بعد پاکستان میں معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کی تمام تاجر تنظیموں کو تیاری کرلینی چاہیں۔ حنیف گوہر نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرلیا تو پھر ملک کے تمام معاشی طبقوں میں استحکام،ترقی اور خوشحالی آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ تاجر تنظیموں کی پیشگی پیش رفت سے ان تمام چیلنجز کو اپنے لیے فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے۔حنیف گوہر نے کہا کہ ملکی برآمدات کے امکانات کافی روشن ہیں اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ رواں برس کی برآمدات گزشتہ سال سے بھی زیادہ ہوں گی۔ تاہم اس کے لیے مشترکہ تحریک اور ٹیم ورک کی ضرورت ہے۔ حنیف گوہر نے تمام ٹریڈ باڈیز بالخصوص ایکسپورٹ کرنے والی تاجر تنظیموں سے کہا کہ وہ اپنی مصنوعات میں اضافے کے لیے سفارشات یو بی جی کو پیش کریں تاکہ ان سفارشات اور مشوروں کی بنیاد پر یو بی جی بیرون ممالک پاکستان کے سفارت خانوں کے تجارتی حصوں کو یہ سفارشات پیش کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان انجینئرنگ آئٹمز،فارما سوٹیکل،چاول،آئی ٹی،ہلال فوڈ وغیرہ کو برآمد کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی تجارتی تنظی میں اپنی مصنوعات کی نمائش کے لیے بین الاقوامی میلوں،نمائشوں کے حصہ لینے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔حنیف گوہر نے تمام تجارتی تنظیموں سے اپیل کی کہ سی پیک کے لیے خاص طور پر معاشی اور سرمایہ کاری کے ضمن میں اپنی آراء یو بی جی کو پیش کریں۔ حنیف گوہر نے بتا یا کہ حال ہی میں حکومت پاکستان نے اسلام آباد،تہران اور استنبول(آئی ٹی آئی) کارگو ٹرین کا اعلان کیا ہے جو جلد شروع کی جائے گی،حنیف گوہر کا کہنا ہے کہ آئی ٹی آئی کارگو ٹرین علاقائی تجارت میں انقلاب برپا کردے گی۔
تاجر رہنما و پاکستان ا سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی کے بور ڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن خادم حسین سینئر نائب صدر فیروز پور بورڈ و ایگزیکٹو ممبرلاہور چیمبرز آف کامرس نے جسارت کو بتایا کہ ملک میں پائیدار اور مستحکم معاشی ترقی ،اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ایکسپورٹر کے مطالبہ پر سیلز ٹیکس زیروفیصد کیا جائے۔نیز صنعتی شعبہ کی ترقی کے لیے بجلی، گیس ٹیرف میں کمی اور ملکی مصنوعات کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے بیرون ملک تعینات ٹریڈ آفیسرز کو متحرک کیا جائے تاکہ ملکی مصنوعات کی بیرون ملک برآمدات میں اضافہ ہوسکے۔ ان خیالات کااظہار انہوںنے فیروز پور بورڈ کے تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔خادم حسین نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹرکے لیے ڈی ایل ٹی ایل آئندہ سال بھی جاری رہنے اور ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے ساتھ ساتھ ملکی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے لیے ٹیکسٹائل سیکٹر کی طرح دیگر برآمدی شعبوں کو بھی مراعات دی جائیں تاکہ وہ ملکی برآمدات میں اضافہ کرکے حکومتی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرکے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکیں اس سے حکومت کو مزید بیرونی قرضے لینے سے نجات ملے گی اور ملک خوشحالی و ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔
OOO