اسرائیل کا اسلامی ممالک پر کامیاب ویب حملہ

385

تین چار ماہ قبل سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیو میںپاکستان کے معروف صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے نام پر بھارت کے نیٹ ورکس چلائے جا رہے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے ڈی این ایس کو بھارت میں موجود سرور سے منسلک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ چند صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ فریڈم نیٹ ورک کی جس ویب سائٹ پر وہ پاکستانی میڈیا پر پابندیوں کے بارے میں لکھتے ہیں وہ ویب سائٹ بھارت سے چلائی جا رہی ہے۔بی بی سی کی خبر کے مطابق ان کے ادارے نے اس ضمن میں آئی ٹی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کسی بھی ویب سائٹ کا ڈی این ایس ہوتا کیا ہے، اس کی کسی ویب سائٹ کے لیے اہمیت کیا ہے اور کیا اس کا کسی دوسرے ملک میں موجود سرور سے منسلک ہونا اس کی طرف جھکاؤ کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان کی سافٹ ویر انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم پاشا کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور آٹی ٹی ماہر بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ آسان الفاظ میں یہ کسی عام ویب سائٹ کے آسان ایڈریس کی میپنگ سروس ہے یعنی یہ ایڈریس ڈیجیٹل دنیا میں ویب سائٹ کو اس کے ڈیٹا سرور کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔اور یہ عام صارف کو نظر نہیں آتا جس کا مطلب کا ہے کہ ایک عام صارف کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کی ویب سائٹ کا ڈیٹا سرور کہاں ہے۔ اب کلاؤڈ ٹیکنالوجی میں تو ایک ڈیٹا کمپنیز کے سرور دنیا کے مختلف ممالک میں ہوتے ہیں تاکہ صارف جہاں سے بھی اپنی مطلوبہ ویب سائٹ کھولے تو اس کے سامنے وہ فوری طور پر لوڈ ہو سکے۔اس کو آٹو ڈیجیٹل رؤٹنگ کہا جاتا ہے اور ایک ڈی این ایس کسی بھی کم لوڈ والے ڈیٹا سرور سے منسلک ہو کر مطلوبہ ویب سائٹ کو کھول دیتا ہے۔
عالمی سطح پر ویب سائٹ کے ڈی اینایس کو رجسٹر کرنے کے لیے انٹرنیٹ کنسورشیم آف نیمز اینڈ نمبرز ( آئی کین) عالمی سطح پر کام کرتا ہے جس کا پاکستان بھی کا رکن ہے۔ کسی بھی ویب سائٹ کے ٹیکنیکل ضوابط یہ ادارہ طے اور لاگو کرتا ہے۔اس پوری صورتحال سے ثابت ہے کہ ہم کسی بھی ویب سائٹ پر کام کر تے وقت ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہماری تما م باتیں پور ی رازداری کے سات صر ف ان لو گوں کو مل رہی ہیں جن تک ہم اپنی باتیں پہنچانا چاہتے ہیں۔
فرانسیسی میڈیا تنظیم ’فوربڈن ا سٹوریز‘ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کو 50 ہزار سے زیادہ فون نمبروں کی فہرست تک رسائی ملی ہے جو کہ سپائی وئیر بنانے والی اسرائیلی کمپنی ’این ایس او‘ کے سافٹ ویئر پیگاسس کو استعمال کرنے والے ممالک کے ممکنہ اہداف تھے۔ دنیا بھر کے 17 مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ مل کر ایمنسٹی اور فوربڈن سٹوریز نے ‘دا پیگاسس پراجیکٹ’ کے نام سے ایک تحقیق شروع کی جس میں انہوں نے 80 کے قریب صحافیوں سے یہ فہرست شیئر کی اور ان نمبروں کا تجزیہ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ جاسوسی اور نگرانی کرنے والا یہ سافٹ وئیر کس کس کے فون کو متاثر کر چکا ہے۔اس تحقیق کی مدد سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں ہزار سے زیادہ حکومتی اہلکاروں، صحافیوں، کاروباری شخصیات، انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور کئی لوگوں کے فون اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس فہرست میں وزیر اعظم عمران خان کا ایک پرانا موبائل نمبر بھی شامل ہے۔ان میں سے 67 افراد کے موبائل ڈیوائسز کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تجزیہ کرنے کے لیے حاصل کیا جس میں سے 37 فون ایسے تھے جن پر پیگاسس کے حملے کا سراغ ملا۔
بھارت کے کہنے پراسرائیلی پیگاسس پراجیکٹ پاکستان کے خلاف شروع کیا گیا۔ جس میں پاکستان دشمنی کرتے ہو ئے عمران خان سمیت اہم پاکستانی شخصیات کے نام شامل ہیں۔ اسرائیلی کاپیگاسس سپائی ویئر کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ این ایس او گروپ اسرائیل میں کام کرنے والی ایک نجی سافٹ ویئر کمپنی ہے جو کہ سنہ 2010 میں قائم کی گئی تھی۔اس کمپنی کاتعلق خفیہ شیطانی قوتوں سے ہے اور اللہ کے سوا دنیا بھر کی حکومتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہیں۔
اس کمپنی کا سب سے معروف سافٹ ویئر ’پیگاسس‘ ہے جو کہ ایپل کمپنی کے آئی فون اور اینڈرائڈ فونز تک خفیہ طریقے سے رسائی حاصل کر کے اْن کی جاسوسی اور نگرانی کر سکتا ہے۔کمپنی کے مطابق ان کا یہ سپائی ویئر دنیا کے 40 ممالک میں 60 حکومتی صارفین کے استعمال میں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اخبار، جو کہ اس تحقیقی منصوبے کا حصہ بھی ہے، کے مطابق این ایس او کمپنی کے 750 کے قریب ملازمین ہیں اور گذشتہ برس کمپنی کی سالانہ آمدنی 24 کروڑ ڈالر سے زیادہ تھی۔اس کمپنی کے اکثریتی حصص لندن کی ایک پرائیوٹ اکوئیٹی فرم ’نوالپینا‘ کے پاس ہے۔پیگاسس خریدنے کے لیے اسرائیلی حکومت کی اجازت درکار ہوتی ہے کیونکہ اس کی خریدوفروخت کی تمام دستاویزات مکمل طور پر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ تحقیقی ادارے سٹیزن لیب کے مطابق انھوں نے دنیا بھر میں 45 سے زیادہ ممالک میں پیگاسس سپائی ویئر کے متاثرین کی شناخت کی ہے جن میںزیادہ تر اسلامی ممالک ہیں جس میں پاکستان، فلسطین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بنگلا دیش، سنگاپور، عمان، لیبیا، لبنان، وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ایسٹ یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ایمنسٹی اور فوربڈن ا سٹوریز کی تحقیق کے مطابق کم از کم دس ایسے ممالک ہیں جو پیگاسس سپائی ویئر کے صارفین میں سے ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، آذربائیجان، بحرین، قزاقستان، میکسیکو، مراکش، ہنگری اور روانڈا شامل ہیں۔
پیگاسس بنانے والی کمپنی این ایس او کا کہنا ہے کہ ان کا سافٹ ویئر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور کمپنی اس سافٹ ویئر کو صرف ان ممالک کو فروخت کرتی ہے جو انسانی حقوق کے بارے میں اچھا ریکارڈ رکھتے ہوں۔ دنیا بھر اور خاص طور پراسلامی حکومتوں کو اسی “دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف استعمال کرنے کا جھانسہ دے کر ان کی ساری معلومات کو ڈیٹا ہیک کیا گیا اور اب بھی جاری ہے
پیگاسس کے کام کر نے کا طریقہ یہ ہے کہ بذریعہ ای میل یا میسج بھیجے جانے والے لنک پر کلک کرتے ہی خود کو متاثرہ شخص کے فون میں انسٹال کر کے جاسوسی کرنے والے کو متاثرہ فون تک مکمل رسائی فراہم کرتا ہے۔اس میں فون کی ہارڈ ڈرائیو میں موجود تمام ڈیٹا جیسا کہ تصاویر اور ویڈیوز، ای میل، کلینڈر، میسجنگ ایپ،اس کے علاوہ یہ سافٹ ویئر فون کا کیمرہ، مائیک وغیرہ استعمال کر کے فون پر یا اس کے قریب ہونے والی بات چیت سْن اور ریکارڈ کر سکتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فوربڈن ا سٹوریز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پیگاسس کا تازہ ترین ورژن بغیر کسی لنک یا کوئی مواد ڈاؤن لوڈ کیے بغیر اپنے آپ کو ہدف والے فون میں انسٹال کر سکتا ہے۔ماہرین نے اس کو صلاحیت کو ’زیرو کلک وزیبیلٹی‘ کا نام دیا ہے یعنی اسے بغیر کسی لنک کو کلک کیے یا پیغام بھیجے بغیر ہی کسی فون میں ڈالا جا سکتا ہے اور اس کی یہی خصوصیت اس کو جاسوسی کے دیگر سافٹ ویئر سے مہلک بناتی ہے۔پیگاسس کو ہر سال بالکل مفت اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے
اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس سے بچنے کے لیے کسی بھی مشتبہ میسیج یا ای میل میں موصول ہونے والے کسی بھی لنک کو کلک کرنے سے گریز کریں۔کسی بھی شخص کی جانب سے کوئی دستاویز یا فائل موصول ہونے کی صورت میں پہلے بھیجنے والے سے تصدیق کر لیں کہ اس نے کوئی مواد بھیجا ہے یا نہیں اور مشکوک لگنے کی صورت میں اسے ڈاؤن لوڈ کیے بنا فوراً ڈیلیٹ کر دیں۔اپنے موبائل اور اس میں موجود ایپلی کیشنز کو باقاعدگی سے اپڈیٹ کریں کیونکہ ایپلی کیشنز کے اپ ڈیٹڈ ورژن پرانے ورژنز کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ یہ سب کھیل اسرائیل سے ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے اسرائیل خاموش ہتھیار پھیلانے میں مکمل طور کامیاب ہو گیا ہے ۔اب اس سے کیسے بچا جائے گا؟
کے الیکٹرک کے ظلم ستم اور اس کی لوٹ مار