کے الیکٹرک یا قاتل الیکٹرک

301

 

سے عوام پہلے ہی پریشان اور بدحال تھے کہ بارش میں کے الیکٹرک کا بوسیدہ نظام ایک بار پھر زمین بوس ہوگیا بارش کی پہلی بوند کے ساتھ ہی روشنیوں کا شہر تاریکی اور اندھیروں میں ڈوب گیا۔ بارہ بارہ گھنٹے شہر میں بجلی غائب رہی اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ بجلی جانے کے ساتھ ساتھ شہر میں کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے اس سال بھی آٹھ سے زیادہ قیمتی اموات کرنٹ لگنے سے واقع ہوئی۔ کے الیکٹرک نے بجلی کے ارتھ کے تار ختم کردیئے ہیں جس کی وجہ سے بارش میں مسلسل اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ سال بھی کراچی میں کرنٹ لگنے سے 70 سے زائد اموات ہوئی تھی اور ان بے گناہ اور مظلوم لوگوں کی قتل کی ایف آئی آر مرحومین کے لواحقین نے کے الیکٹرک کے خلاف کٹوائی لیکن افسوس کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس سال بھی کے الیکٹرک نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے تھے جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ سب سے افسوس ناک سانحہ حسین آباد میمن فائونڈیشن کے قریب ہوا جب ایک پندرہ ہزار روپے ماہوار پر کام کرنے والا غریب مزدور راحیل بجلی کے کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ راحیل کے گھر بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ اسے اسپتال سے اطلاع دی گئی کہ ایک گھنٹے کے اندر بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ راحیل خوشی خوشی اسپتال کی جانب روانہ ہوا کسے خبر تھی کہ وہ اسپتال نہیں موت کی وادی میں جا رہا ہے۔ اسپتال کے قریب پہنچتے ہی بجلی کے کھمبے کے اطراف میں کرنٹ پھیلا ہوا تھا اور غریب مظلوم راحیل کرنٹ کی لپیٹ میں آگیا۔ اسے بڑی مشکل کے ساتھ وہاں سے نکال کر اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔ راحیل کے انتقال کے دس منٹ کے بعد اللہ نے اس کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی۔ لیکن اب اس گھر میں بیٹے کی ولادت کی خوشی کے بجائے راحیل کی موت کا کہرام اورماتم بپا تھا۔ بے شک اللہ کا اپنا نظام ہے لیکن اس طرح کی بے چارگی کی موت بڑے بڑے کو آنسوں سے رلا دیتی ہے۔ وہ بچہ جس نے ابھی دنیا میں آنکھ ہی کھولی کہ وہ یتیم ہوگیا اوراس یتیم کا باپ کے الیکٹرک کے بوسیدہ نظام کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کے الیکٹرک میں نہ مانو کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور اپنی غلطی ماننے کو بھی تیار نہیں اور تو اور محکمہ پولیس بھی کے الیکٹرک کی زبان بول رہا ہے اور چمک نے خوب کام دکھایا۔ راحیل کے اہل خانہ کو پوسٹ مارٹم نہ کرانے دیا گیا تا کہ پولیس کیس نہ بنے ۔علاقے کی سماجی تنظیم خدمت گار انسانیت ویلفیئر کمیٹی نے جب عزیز آباد تھانے کے ایس ایچ او فرخ ہاشمی سے
ملاقات کر کے بجلی کے کرنٹ سے ہلاک ہونے والے مظلوم راحیل کے قتل کی ایف آئی آر کے الیکٹرک کی انتظامیہ کے خلاف کٹوانے کی کوشش کی تو ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی اور کہا کہ درخواست میں سے کے الیکٹرک کا نام نکال دیا جائے۔ لیکن سماجی تنظیم کے ذمہ داران نے زیادہ بحث کی تو پھر پولیس کے ذمہ داران نے کہا کہ راحیل کی موت تو کرنٹ لگنے سے نہیں ہوئی ہے وہ پھسل کر گر گیا اور اس کے سر میں چوٹ لگی تھی جس پر وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔ اتنا بڑا جھوٹ اور ظلم ان لوگوں کی جانب سے جو عوام کے ٹیکسوں پر پل رہے ہیں۔ جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو انصاف فراہم کریں۔ کے الیکٹرک نے پیسے کے بل بوتے پر سب کو خریدا ہوا ہے اور کسی میں ہمت جرات نہیں کہ وہ کے الیکٹرک کے سامنے کھڑا ہوسکے۔ ہمارا ایمان ہے کہ مظلوم راحیل کی زندگی ہی اتنی ہی تھی اسے طے شدہ زندگی سے ایک سانس بھی زیادہ نہیں جینا تھا لیکن ستم یہ کہ جن لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے راحیل کی جان گئی وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ بے شک پیسے میں بڑی جان اور قوت ہے پیسہ بڑے بڑوں کو خرید لیتا ہے۔ پیسے کی بدولت ہی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن کل آخرت میں اپنے رب کے حضور یہ لوگ اللہ کو کیا منہ دیکھائیں گے اور اللہ کوکیا جواب دیں گے۔ وہاں توکوئی پیسہ اور دولت کام نہیں آئے گی۔ وہ بچہ جس کے پیدا ہونے سے دس منٹ قبل ہی اس کا باپ کے
الیکٹرک کی بچھائی ہوئی بساط کی لپیٹ میں آگیا۔ پندرہ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا کیسے اپنا گھر بار چلاتا ہوگااور جب کہ کمانے والا ہی نہیں رہا تو دنیا کی دھوپ اور چھائوں کا یہ معصوم بچہ کیسے مقابلہ کریگا ۔کے الیکٹرک کے ذمہ دار راحیل کے قتل کے مقدمے سے بظاہر تو صاف بچ گئے ہیں لیکن اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انشاء اللہ مظلوم راحیل کا خون رنگ لائے گااور ظالمو کو جائے پناہ نہیں ملے گی۔ کے الیکٹرک جو کہ قاتل الیکٹرک ہے اس کے منہ پر کراچی کے مظلوم عوام کا خون لگ گیا ہے۔ لوٹو اور پھوٹو کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان خدارا کراچی کی عوام کو کے الیکٹرک کے ظلم ستم سے بچائیں اور کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے کراچی کے مظلوم عوام کی ہونے والی ہلاکتوں کا فوری نوٹس لیاجائے ورنہ راحیل کے شیرخوار بچے کا ہاتھ قیامت کے دن آپ سب کے گریبانوں پر ہوگا۔ وزیر اعظم پاکستان جو کہ ریاست مدینہ کی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ ریاست مدینہ کے خلیفہ امیر المومین حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوکا مر جائے تو اس کا ذمہ دار عمر ہوگا۔ راحیل کے قتل کے ذمہ دار بھی کے الیکٹرک کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ حکمران وقت بھی ہیں اور یہ سب مظلوم راحیل کے قتل کے حقیقی ذمہ داران ہیںاور اللہ کی پکڑ بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوئے گاجب لاد چلے گا بنجارا‘‘۔