مثبت صحافت کے علمبردار عارف نظامی کی رحلت

455

عید کے روز ممتاز صحافی عارف نظامی صاحب 72 بر س کی عمر میں بقضائے الٰہی انتقال کر گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ عارف نظامی صاحب نے طویل عرصہ تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مثبت انداز میں کام کیا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم پائی اور اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت میں قدم رکھا۔ انہوں نے نوائے وقت سے صحافت کا آغاز کیا۔ مرحوم کافی عرصہ نوائے وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے 1986 ء￿ میں روزنامہ نیشن لاہور کے آغاز پر بحیثیت ایڈیٹر انگریزی صحافت کا آغاز کیا۔
عارف نظامی صاحب اپنے چچا مجید نظامی صاحب سے اختلافات ہونے تک نیشن کے مدیر رہے تاہم مجید نظامی مرحوم نے انہیں 2009 ء￿ میں نیشن کی ادارت سے علیحدہ کر دیا۔ روزنامہ پاکستان کے مدیر محترم مجیب الرحمن شامی صاحب، روزنامہ جرات لاہور کے مدیر جمیل اطہر قاضی صاحب اور ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر محترم الطاف حسن قریشی صاحب نے مجید نظامی صاحب کے اس اقدام پر شدید تنقید کی۔
مجید نظامی صاحب اور عارف نظامی صاحب کے درمیان اختلافات کافی عرصے سے چلے آ رہے تھے جب یہ اختلافات بہت بڑھ گئے تو راقم الحروف نے ممتازصحافی فصیح اقبال مرحوم(مدیر روزنامہ زمانہ اور بلوچستان ٹائمز) سے بطور خاص اسلام آباد میں ملاقات کی اور ان سے گذارش کی کہ وہ مجید نظامی مرحوم پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں قائل کریں کہ وہ اختلافات کو فراموش کر کے اپنے بھتیجے کو نیشن سے علیحدہ نہ کریں۔ اس سے صحافتی حلقوں اور عوام میں کوئی اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
راقم الحروف کی بڑی خواہش تھی کہ مجید نظامی صاحب اور عارف نظامی صاحب کے اندرونی اختلافات منظر عام پر نہ آئیں تاہم فصیح اقبال مرحوم اس بارے میں مجید نظامی مرحوم سے کوئی نتیجہ خیز مذاکرات نہ کر پائے۔ عارف نظامی صاحب کی روزنامہ نیشن سے علیحدگی سے مجھے دکھ پہنچا۔ مجید نظامی صاحب کی بیگم کے انتقال پر راقم السطور ، جمیل اطہر قاضی اور ایک اور صحافی دوست اظہار افسوس کیلئے نظامی صاحب کے دفتر گئے۔ اگرچہ اس سے قبل محترمہ ریحانہ نظامی مرحومہ کی رحلت پر ان کے جنازہ اور قل خوانی میں شرکت کر چکے تھے تاہم مجید نظامی صاحب کی دل جوئی کیلئے ان کے دفتر گئے۔ ہم کچھ دیر ان کے ساتھ رہے تو مجید نظامی صاحب مجھ سے ہی بات چیت کرتے رہے۔ دفتر سے باہر آئے تو جمیل اطہر قاضی صاحب کہنے لگے کہ نظامی صاحب آپ سے ہی بات کرتے رہے شاید انہوں نے عارف نظامی صاحب کی نیشن سے علیحدگی پرتنقیدی بیان کو پسند نہیں کیا۔
روزنامہ جنگ کے مدیر شکیل الرحمن نے عارف نظامی صاحب کو روزنامہ جنگ میں کالم لکھنے کی دعوت دی اور عارف نظامی نے جنگ کیلئے کالم لکھنا شروع کر دیا۔ مجید نظامی مرحوم شکیل صاحب سے اختلافات کی بنا پر عارف نظامی صاحب سے مزید ناراض ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ مجید نظامی صاحب کی مغفرت فرمائے۔ یوں تو مجید نظامی صاحب کی صحافی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اختلافات رکھنے والوں کے بارے میں انہوں نے کبھی کسی طرح کی لچک نہیں دکھائی۔ عارف نظامی صاحب کافی دیر تک روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے رہے تاہم ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اپنے انگریزی اخبار کا اجرا ء کریں۔
مجھے چونکہ (1996 سے 2006 ) دس سال ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ عارف نظامی صاحب اپنے والد محترم حمید نظامی مرحوم کے ساتھ میرے تعلق اور عقیدت سے بخوبی واقف تھے لہذا ان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ عارف نظامی صاحب اپنے اخبار کے اجراء کیلئے وقتاً فوقتاً راقم الحروف سے بات چیت کرتے رہتے تھے۔ میں نے ہمیشہ ان سے گذارش کی کہ وہ پبلک لیمٹڈکمپنی بنا کر پہلے اردو اخبار جاری کریں اور اس کے بعد انگریزی اخبار کی اشاعت پر توجہ دیں مگر عارف نظامی صاحب روزنامہ نیشن کے مقابلے میں انگریز ی اخبار کی اشاعت میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ جب انہوں نے انگریزی اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس ضمن میں محترم مجیب الرحمن شامی صاحب، محترم جمیل اطہر قاضی صاحب اور محترم الطاف حسن قریشی صاحب کو آگاہ کیا۔ ان حضرات نے عارف نظامی صاحب کو بتایا کہ راقم الحروف کے پاس پاکستان ٹو ڈے (PAKISTAN TODAY) کا ڈیکلریشن دستیاب ہے۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے ڈیکلریشن کے حصول کیلئے بات کی تو میں نے انہیں پاکستان ٹو ڈے کا ڈیکلریشن دینے کی حامی بھر لی۔ میں نے انہیں گذارش کی کہ باضابطہ طورپر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے رجسٹرار سے روزنامہ پاکستان ٹو ڈے کا این او سی حاصل کر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے تصدیق کرالیں۔
عارف نظامی صاحب جب نگران دور میں وزیر اطلاعات تھے تو ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ مرحوم نہایت ملنسار تھے اور ہمیشہ ان سے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔ کئی بار میں نے معزز شخصیات اور ممتاز صحافیوں کے ہمراہ ان کو کھانے پر مدعو کیا تو عارف نظامی صاحب ہمیشہ تشریف لائے۔
راقم السطور روزنامہ نوائے وقت میں کالم لکھتا رہتا تھا اور جب کبھی عارف نظامی صاحب سے ملاقات ہوتی تو انہوں نے مجھ سے کبھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ وہ کہتے تھے کہ شروع سے ہی روزنامہ نوائے وقت سے آپ کی نظریاتی وابستگی ہے اس لئے آپ نوائے وقت میں لکھتے رہیں۔
محترم عارف نظامی صاحب بزم اقبال لاہور کے بورڈ آف گورنر میں شامل تھے۔ انہیں جب بھی اجلاس میں شرکت کیلئے دعوت نامہ بھیجا گیا انہوں نے ہمیشہ ہی کہا کہ وہ اجلاس میں شرکت کی کوشش کریں گے۔ بزم اقبال کو جب بھی کسی قسم کی کوئی مشکل پیش آئی تو انہوں نے ہمیشہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت سے بات کر کے مشکل رفع کی۔
عارف نظامی صاحب نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں طویل عرصہ تک موثر کردار ادا کیا۔ وہ مثبت اور شائستہ صحافت پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ تمام شعبوں کی اہم شخصیات سے ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ ان سے جب بھی کسی تقریب میں ملاقات ہوتی تو ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔
عارف نظامی مرحوم بہت سے خوبیوں کے مالک اور اعلیٰ پائے کے باخبر صحافی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور ان کے بھائیوں اور اہل خانہ کو صبر و استقامت سے ان کی رحلت کا عظیم سانحہ برداشت کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے