نگہ بلند سخن دلنواز’’مرزا لقمان بیگ شہید‘‘

591

دنیا حال کا عنوان ہے۔جو موجود ہے وہی اہم ہے اسی کا ذکر ہے اور جیسے ہی دنیا سے اور نظر سے اوجھل ہو ماضی کا قصہ ، مگر اسی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو ماضی ہوجانے کے باوجود زندہ رہتی اور یاد رکھی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت مرزا لقمان بیگ شہید تھے۔ سید ابوالاعلی مودودی رح کے مرجع خلائق پر پوری اترنے والی شخصیت لانڈھی کورنگی کی تاریخ کا ایک اہم باب۔
لقمان بیگ صاحب کا گھرانہ لانڈھی کا ایک اہم خاندان تھا۔ ایک جانب ان کے والد مرزا عثمان بیگ اپنے راشن شاپ کی وجہ سے پورے لانڈھی میں جانے جاتے تھے، وہیں دوسری جانب ان کے چچا دراز بیگ ایک علمی اور سیاسی شخصیت تھے جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھااور ایوب خان کے زمانے میں لانڈھی سے بنیادی جمہوریت پروگرام کے ممبر رہے تھے۔ اسی لیے یہ پورا گھرانہ ایک اہم سماجی حیثیت کا حامل تھا۔ لقما ن بیگ صاحب کی تربیت میں ان کے والد عثمان بیگ کا اہم کردار تھا گوکہ عثمان بیگ صاحب ایک سخت شخصیت سمجھے جاتے تھے اور علاقے کے لوگ ان کا خصوصی احترام کرتے تھے مگر بیگ صاحب نے خود اس بات کا کئی مرتبہ ذکر کیا کہ ہمدردی اور خدا ترسی کا سبق انہیں عثمان صاحب سے ملا۔ کئی بار لوگ راشن شاپ پر پائو یا آدھا پائو گھی یا چینی وغیرہ لینے آتے تو بڑے بیگ صاحب کچھ زیادہ تول دیا کرتے اس بات کو لقمان صاحب نے محسوس کیا اور ایک بار انہیں تولتے ہوئے توجہ دلانے کی کوشش کی جس پر ڈانٹ کھائی۔ بعد میں انہوں نے بٹھا کر اپنے فرزند کو بتایا کہ یہ محلے کے غریب لوگ ہیں۔ لہٰذا تھوڑی مقدار میں یہ اشیاء لیتے ہیں ہم اگر تھوڑا زیادہ تول دیں گے تو اللہ بڑا خوش ہوگا اور ان کومعلوم بھی نہ ہوگا نہ احسان کا پتہ چلے گا۔ خدا کو ایسی نیکی بہت پسند ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شہید نوجوانی کی عمر سے لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ہر ایک کی خوشی اور غم میں شامل رہتے۔ آج بھی لانڈھی کورنگی میں یہ بات مشہور ہے کہ رات کے تین بجے بھی کوئی کسی کام سے ان کے پاس آجاتا تو وہ اس کے ساتھ چل پڑتے۔ خدمت اور انسانوں سے محبت کا یہ جذبہ ہی تھا جس کی وجہ سے آج دو دہائی گزرنے کے بعد بھی لانڈھی کورنگی کے عوام نے انہیں یاد رکھا ہوا ہے۔
جماعت اسلامی سے ان کی شناسائی 80 کی دہائی میں ہوئی گوکہ کالج کے زمانے میں ان کا حلقہ احباب جمعیت سے وابستہ افراد سے ہی متعلق تھا مگر باقاعدہ جمعیت میں شامل نہیں رہے۔ یونس خان مرحوم کے میڈیکل اسٹور پر بیٹھک رہتی یہیں سے جماعت سے آشنائی ہوئی۔1983 کے بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہو ا تو جماعت کے اکابرین نے اس نئے نئے کارکن کو انتخاب لڑانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کا خیال تھاکہ یہ نوجوان علاقے میں ناصرف اچھی شہرت کا حامل ہے، ساتھ ہی باپ اور چچا کی وجہ سے پورا علاقہ اس سے واقف ہے۔ لہٰذاجماعت کا اپنا ووٹ بینک اور ان کے ذاتی ووٹ بینک کے مل جانے کے نتیجے میں یہ نشست جیتی جاسکتی ہے۔ بیدار مغز قیادت کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ موصوف کو امیدوار بنانے کے نتیجے میں پورا محلہ ان کی سپورٹ پر کھڑا ہوگیا اور وہ یہ نشست جیت گئے۔ جس کے بعد حلقہ 85 لانڈھی میں تعمیر و ترقی کے اس باب کا آغاز ہوا جس کی مثال آج تک دوبارہ نہ مل سکی۔ تین یا ساڑھے تین سال شہید کونسلر رہے کیونکہ بلدیہ توڑ دی گئی تھی مگر اس عرصے میں شاید تین اسکول ، چار پارک ، بلدیہ شادی ہال ، بیڈمنٹن کلب ، باڈی بلڈنگ کلب قائم کیے۔ ہر گھر تک پانی کی لائن پہنچائی ، سڑکیں تعمیر کیں ، کونسلر آفس تعمیر کروایا جس میں اب نادرا کا دفتر بھی قائم ہے۔اس سب کے ساتھ ساتھ بلامبالغہ سینکڑوں افراد کو بلاتخصیص سرکاری نوکریا ں دلوائیں۔ اس کے علاوہ علمی ادبی سرگرمیا ں بھی مستقل منعقد کی جاتی رہیں۔ کوئی شعبہ ایسا نہ تھا کہ جس میں خدمات انجام نہ دی گئی ہوں۔ سچ یہ ہے کہ ایسا کام بعد کے کسی بھی دور میں نہ ہوسکا ۔
کونسلر منتخب ہونے کے بعد جب میئر کے انتخاب کا مرحلہ آیا اس وقت کا واقعہ ہے کہ بیگ صاحب شہید جماعت اسلامی کے کیمپ پر موجود تھے اور عبدالستار افغانی صاحب کے حق میں ووٹ ڈلوانے کی تگ و دود میں مصروف عمل تھے۔ اس موقع پر مسلم لیگ کے کیمپ پر موجود کونسلر صاحبان میں سے کسی نے کہا کہ بھتیجے الیکشن جیت لیا۔ اب ادھر آجا ( آپ کے چچا دراز بیگ کیونکہ پرانے مسلم لیگی تھے لہٰذا ساری قیادت کے ساتھ آپ کے اچھے تعلقات تھے اور سب کو چچا کہہ کر مخاطب کرتے تھے) یہ بات سن کر انہوں نے وہ تاریخی جواب دیا جو بعد میں حرف بہ حرف سچ ثابت ہو۔ کہا چچا سوچ سمجھ کر جماعت اسلامی کے قافلے میں شامل ہوا ہوں اب تو پرچم میں لپٹ کر جائوں گا۔ وقت نے ان کی یہ بات درست ثابت کردی۔
کونسلری کا بھرپور عوامی خدمت کا دور گزرا جس کا انجام یو ں ہوا کہ والد سے ورثے میں ملا ہوا راشن شاپ جو پورے لانڈھی میں مشہور تھا اور گھرانہ انتہائی خوشحال تصور کیا جاتا تھا سارا کاروبار وقت نہ دینے کے باعث ٹھپ ہوگیا۔یہ اعزاز صرف اور صرف پاکستان میں جماعت اسلامی کو حاصل ہے کہ اس کے افراد جب عوامی عہدوں پر آتے ہیں تو ان کے کاروباری یا معاشی معاملات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوجاتے ہیں ورنہ دیگر جماعتوں کے افراد کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لقمان شہید کا کاروبار بھی ایسا متاثر ہوا کہ بالآخر انہیں اپنی دکان کرائے پر دے کر خود نوکری اختیار کرنی پڑی۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی اور نیت کے صاف ہونے کا صلہ تھا کہ ملازمت احمد قاسم پاریکھ مرحوم کے پاس اختیار کی جنہوں انہیں ساری زندگی عزت و اکرام سے نوازا اور تحریکی امور کی انجام دہی میں ہمیشہ معاونت کی۔
ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کے بعد شہر کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ایسے میں انہیں بارہا ایم کیو ایم میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی مگر سید مودودی کے سپاہی نے مڑکر نہ دیکھا۔دنیا ان کی کبھی بھی منزل نہ تھی سو کیسے ممکن تھا کہ وہ دنیاوی کامیابیوں اور عہدوں کے لیے ایسا سودا کرلیتے۔ حالات کی سختی کا سامنا کیا ، بارہا دھمکیاں بھی ملیں لیکن علاقے میں ہر ایک کے ساتھ جو محبت کا تعلق تھا اس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے اکثر لوگ بھی آپ کی ناصرف بڑی عزت کرتے تھے بلکہ مختلف مواقع پر اپنے لوگوں کے سامنے آپ کے حق میں ڈھال بن کر کھڑے ہوتے اور کسی کو بدتمیزی نہ کرنے دیتے۔ آپریشن کے زمانے میں جب سارے بڑے بڑے نامی گرامی میدان سے غائب تھے۔ لقمان بیگ عوام کے مسیحا بن کر موجود تھے۔ بے گناہ نوجوانوں اور ایم کیو ایم کے کارکنوں تک کو پولیس وغیرہ گر فتار کرکے لے جاتی تو ان کے گھر والے آپ کے پاس آتے۔ وہ خود تھانے جاتے، شخصی ضمانت پر لوگوں کو رہا کرواتے ہر طرح کے بدترین حالات میں لوگوں کے درمیان اور بغیر کسی جماعتی یا کسی بھی طرح کے تعصب کے ہر ایک کے مسئلہ کے حل کے لیے نکل پڑتے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی آپ کاذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہوجاتے ہیں۔
1990 میں جماعت کے ارکان نے آپ کو ضلع بن قاسم کا امیر منتخب کیا اور جولائی 99 میں شہادت تک آپ برابر امیر ضلع کی حیثیت سے ذمہ داریا ں اداکرتے رہے۔ اس عرصے میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن بھی لڑے مگر لسانیت کی آندھی کے باعث منتخب نہ ہوسکے مگر اس طوفان کے سامنے نہ صرف جم کرکھڑے رہے ساتھ ہی جماعت کے قدم بھی آگے بڑھائے۔ آپ کی قیادت میں لانڈھی کورنگی جماعت کا مرکز قرار پائے۔ سینکڑوں نئے کارکن بنے، دعوتی سیاسی ہر محاذ پر سفر تیز تر ہوا۔ آپ کی شہادت اور جدوجہد کا ہی ثمر تھا کہ 2001 کے بلدیاتی انتخاب میں لانڈھی اور کورنگی ٹائون میں جماعت اسلامی فاتح قرار پائی۔
جولائی 1999 میں عوام سے محبت رکھنے والے اس قائد کو گھر کے پاس گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ آپ کی نماز جنازہ اس وقت کے قیم جماعت اسلامی پاکستان محترم سید منورحسن صاحب نے پڑھائی اور لانڈھی کے پولیس گرائونڈ میں لانڈھی کورنگی کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوا۔ جس میں لانڈھی کورنگی کے عام لوگ والہانہ طور پر شریک ہوئے اور لانڈھی سے ریڑھی قبرستان تک کم از کم 10 سے 15 کلومیٹر تک کا سفر لوگوں نے شدید گرمی کے باوجود پیدل جسد خاکی کاندھے پر اٹھا کر طے کیا۔ انہیں قتل تو کردیا گیا مگر ان کے مشن کو روکا نہ جاسکا۔ وہ سینکڑوں دیے جلا کر رخصت ہوئے ایک جانب بہترین تنظیم پیچھے چھوڑی جس نے اس علم کو مضبوطی سے تھام کر سفر جاری رکھا وہیں ان کا گھر آج بھی جماعت اسلامی کا مرکز ہے۔ کوئی الیکشن ہو ، عوامی خدمت کے معاملات یاا جتماعی قربانی اور چرم قربانی کی مہم آپ کا گھر نیوکلس کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ بیگ صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے تینوں بیٹے تحریک سے وابستہ ہیں جبکہ بالعموم قائدین کے حوالے سے ایسی مثالیں کم کم ملتی ہیں یا ملیں بھی تو ہمدر وغیرہ کی حد تک مگر آپ کے تینوں صاحبزادے پہلے جمعیت میں رہے اور اب تحریک کی اگلی صفوں میں خدمات سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے صاحبزادے مرزا نعمان بیگ جماعت کے رکن اور ناظم علاقہ لانڈھی ہیں۔
مرزا فرحان بیگ کو زیادہ تر لوگ بڑا سمجھتے ہیں لیکن وہ دوسر ے نمبر پر ہیں۔ ضلع کی مختلف ذمہ داریوں پر رہے ہیں اور کراچی اور صوبہ سند ھ کی شوریٰ کے رکن ہیں۔ 2015 کا بلدیاتی الیکشن بھی لڑچکے ہیں۔ چھوٹے ثوبان بیگ ہیں اور اپنے فن خطابت کے باعث پورے ملک میں جانے جاتے ہیں۔ جماعت کے ناظم حلقہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں اداکرتے رہے ہیں۔ دھرنوں جلسوں کو گرمانے کے لیے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور وہ کبھی مایوس نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ مرزا لقمان بیگ شہید کی ساری جدوجہد کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کے گھر اور خاندان کو اسی طرح تحریک کی خدمات کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین