بہت دیر کی مہرباں

242

مشیر قانون سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ پولیس رولز میں سقم کی وجہ سے بے گناہ افراد بھی گرفتاری کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جیلوں اور عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا جارہاہے اس سقم کو دور کرنے کیلئے سندھ کابینہ نے پولیس رولز میں ترامیم کی منظوری دی ہے اس کہنا ہے کہ پاکستان کی کرمنل جسٹس سسٹم میں سقم کی وجہ سے ایف اائی آر کے درج ہوتے ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جاتاہے لیکن پولیس رولز میں ترمیم کے بعد جب تک جرم ثابت نہ ہو گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ ہمیں حیرت ہے کہ مشیر قانون سندھ کو پولیس رولز میں تو سقم نظر آگیا مگر نظام عدل میں جو سقم پائے جاتے ہیں وہ دکھائی کیوں نہیں دئے حالانکہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں بغیر ثبوت کے مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی مگر پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے جس کی جیب میں وکیل کو فیس دینے کے پیسے موجود ہیں وہ کسی پر بھی مقدمہ دائر کر دیتاہے اور پھر سماعت کے نام پر پیشی در پیشی کا مکروح اور اذیت کھیل کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔بیس پچیس سال کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مدعی کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا اور یوں عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا جاتا ہے اور کوئی نہیں پوچھتا کہ بیس پچیس سال تک ایک جعلی مقدمے کی سماعت اور پیروی کیوں کی گئی ستم بالائے ستم یہ کہ مقدمے کے خارج ہونے کے بعد اپیل در اپیل کا ابلیسی چکر چلایا جاتا ہے اور کسی جج کو یہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمے کی سماعت کیوں کی گئی اور کیوں کی جارہی ہے۔
بحیثیت مسلمان کے علم کا حصول ہمارا مذہبی فریضہ ہے ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے مگر اب ہم اپنے پڑوس میںبھی جانا پسند نہیں کرتے دیکھنے میں ہماری عدالت عظمیٰ بہت فعال اور متحرک ہے اور از خود نوٹس لینے میں اس کی کارکردگی بے مثال ہے مگر جو خرابیاں اور دل آزاریاں نظام عدل میں موجود ہیں وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں دنیا کی تمام سپریم کورٹس از خود نوٹس لیتی ہیں مگر وہ ایسے معاملات میں اپنے اختیارات بروئے کار لاتی ہیں جو ملک و قوم کیلئے سود مند اور فلاح کا باعث بنتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سپریم کورٹ ایسے معاملات میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہے جو اس کی برتری کو ثابت کر سکے ۔
بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بھی بہت سے از خود نوٹس لئے ہیں۔ جو ملک وقوم کے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں، بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ایک حکم کے ذریعے تمام عدالتوں کو پابند کر دیا ہے کہ وہ اس وقت تک کسی مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتیں جب تک یہ تحقیق نہ کرلیں کہ مقدمہ درست ہے یا جعل سازی پر مبنی ہے اور پولیس کو بھی یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر مقدمہ کے بارے میں تحقیقات کر کے عدالت کو رپورٹ پیش کرے یوں 90فیصد مقدمات سماعت کے بغیر ہی خارج کر دئے جاتے ہیں۔
بیس پچیس سال بعد ایک مقدمہ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کیا گیا تو ہم نے جج صاحب سے کہا کہ سر یہ فیصلہ تو 20برس پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ آپ نے عدالت اور مدعا علیہ کا وقت کیوں برباد کیا۔ جج صاحب نے کہا کہ جب کسی مقدمے کی فائل ہمارے سامنے آتی ہے تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ جعلی ہے یا حقیقی مگر ہم اس کی سماعت پر مجبور ہوتے ہیں۔ گویا آپ مقدمہ پہلی سماعت پر ہی خارج کر سکتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے مگر ہم ایسا کر نہیں سکتے ، کیوں؟ ہم نے پوچھا ۔جج صاحب نے کہا کیوں کہ مقدمہ کو پہلی سماعت پر جعلی قرار دے کر خارج کردیا جائے تو وکلاء عدالتوں میں پیش ہونے سے انکار کر دیں گے۔ اور بار کونسل تبادلے کا مطالبہ داغ دے گی،مقدمہ سیشن کورٹ میں چلا جائے گا اور سیشن جج مقدمہ کو واپس سول کورٹ بھیج دے گا۔اس قباحت سے بچنے کیلئے مقدمہ کی سماعت کی جاتی ہے تاکہ میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ مگر اس کے نتیجے میں مدعا علیہ کا وقت اور پیسہ برباد ہوتا ہے اس کا کیا جواز ہے
یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ جعلی مقدمات اپیل در اپیل کے شیطانی چکر میں چکراتے ہوئے ۔ وزارت عظمیٰ کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔اور وہاں پر بھی پیشی در پیشی کا اذیت ناک اور مکروہ کھیل جاری رہتا ہے۔حتیٰ کہ مدعا علیہ قبر کی گود میں پہنچ کر خدا کی عدالت میں پیش ہو جاتا ہے اس پس منظر میں ہماری استدعا ہے کہ پولیس رولز کے سقم دور کرنے کیلئے جو ترامیم کی گئی ہیں۔ انکا اطلاق عدالتی نظام کے سقم کو دور کرنے کیلئے بھی کیا جائے۔