چین اور امریکا کی بحری جنگ کی تیا ری

451

رائیٹر کی رپورٹ کے مطابق چین اور امریکا کے درمیان ایک مرتبہ پھر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے چین پہلے بھی متنازع سمندری علاقے میں امریکی جہازوں کی موجودگی کو فوجی اشتعال انگیزی قرار دے چکا ہے چین نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے متنازع جزائر کے قریب دو جنگی بحری جہاز بھیج کر چین کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔چین کی وزارتِ دفاع کا گلوبل ٹائمز سے کہنا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین میں اس کے بحری اور فضائی جہازوں نے امریکی جہازوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے انہیں خبردار کیا اور امریکی جہا ز وں کو وہاں سے فرار ہونا پڑا ۔امریکی بحری جہازوں نے جنوبی بحیرہ چین کے چار مقامات پر نقل و حرکت کی ہے جس میں ووڈی جزیرہ بھی شامل ہے جہاں چین نے میزائل نصب کر رکھے ہیں۔امریکا کو ٹرکوں پر نصب ان “S4″میزائلوں کے بارے میں انکشاف مصنوعی سیارے سے حاصل کردہ تصاویر سے ہوا تھا۔ ا س کے بعد امریکا نے چین کو ہوائی کے قریب بحری جنگی مشقوں میں شرکت کا دعوت نامہ واپس لے لیا تھا۔ رائٹر ز کے مطابق بحرالکاہل میں امریکی بحری بیڑے کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس علاقے میں نقل و حرکت کی آزادی کے حوالے سے معمول کی فوجی مشقیں کرتا رہتا ہے اور آئندہ بھی ان کو جاری رکھا جائے گا۔امریکا کا مزید کہنا تھا کہ یہ سمندر کسی کی ملکیت نہیں ہیں اور دنیا بھر کے سمندری جہازوں کو اقوامِ متحدہ کے قوانین کے مطابق اس سمندر سے گزرنے کی مکمل آزادی ہے ۔
خیال رہے کہ تقریباً دو ہفتے پہلے ہی چینی فضائیہ نے کہا تھا کہ اس کے بمبار طیاروں کو پہلی بار جنوبی بحیرہ چین میں بھجوایا جا رہا ہے جس کو امریکا نے خطے کے حوالے سے نیا خطرہ قرار دیا تھا۔ چین جنوبی بحیرہ چین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا بعض ایسے جزیروں پر بھی دعویٰ ہے جن پر کئی دوسرے ملک بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔دور تک نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل بمبار H-6K ان طیاروں میں شامل تھے جنھوں نے جزیروں پر مشقیں کیں تاکہ چین کی تمام علاقوں تک رسائی کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
امریکا کاکہنا ہے کہ یہ سمندر اہم تجارتی گزرگاہ ہے اور جس پر چھ ممالک اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔جن میں تائیوان جاپان اور ویتنام اہم ممالک بھی شامل ہیںیاد رہے کہ چین پر امریکا اور اس کے پڑوسی ممالک کا الزام ہے کہ چین سمندر کے وسیع حصے پر اپنے حق کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے وہاں فوجی نقل و حرکت کرتا رہتاہے۔چین سالِ گزشتہ اکتوبر میں بھی متنازع جزائر کے قریب امریکی بحری جہازوں کی موجودگی کے واقعات پر اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے سنگین سیاسی اور فوجی اشتعال انگیزی قرار دے چکا ہے۔
امریکااور چین کے درمیان یہ تنازعہ 2020 ء سے شدت اختیار کر گیاہے جب امریکا نے بحیرہ جنوبی چین کے وسائل پر قبضے کی چینی کوششوں کو ’غیر قانونی‘ قرار دے دیا۔اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین کے اندر چند علاقوں میں موجود قدرتی وسائل کو حاصل کرنے کی چینی جدوجہد مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔بیجنگ کی جانب سے متنازع پانیوںکو کنٹرول کرنے کے لیے پڑوسی ممالک کوہراساں کرنے کی مہم’ غلط ہے۔ان کی اس بات کے جواب میںچین نے کہا تھا کہ امریکا جان بوجھ کر حقائق اور بین الاقوامی قوانین کو مسخ کرتا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ چین اس علاقے میں مصنوعی جزیروں پر فوجی اڈے بنا رہا ہے تاہم اس علاقے پر برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام بھی دعوے دار ہیں۔ان ممالک کے درمیان بحیرہ جنوبی چین پر علاقائی جنگ صدیوں سے جاری ہے مگر حالیہ سالوں میں یہاں تناؤ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔بیجنگ کا دعویٰ ’’نائن ڈیش لائن‘‘ کہلانے والے علاقے چین کے ہیں اور اس نے اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے یہاں جزیرے بنائے، اور اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کیا ہے۔ویسے تو یہ علاقے بالعموم غیر آباد ہیں مگرکی لیکن امکان یہ ہے یہاں قدرتی وسائل کے ذخائر موجود ہوسکتے ہیں۔ یہ سمندر جہاز رانی کا ایک راستہ بھی ہے اور یہاں بڑے پیمانے پر ماہی گیری بھی کی جاتی ہے۔
اپنے سالانہ دفاعی جائزے میں جاپان نے کہنا ہے کہ اس علاقے میں چین کی بحری سرگرمیاں قابلِ تشویش ہیں۔ جاپان نے کہا کہ بیجنگ بحرِ مشرقی اور جنوبی چین میںا سٹیٹس کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے ویتنام، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے پانیوں کے قریب چین کے دعووں کو مسترد کرتا ہے۔یاد رہے کہ امریکا پہلے کہہ چکا ہے کہ وہ سرحدی تنازعات میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا۔ ‘عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے ان پانیوں میں دوسری ریاستوں کی ماہی گیری یا تیل نکالنے کی سرگرمیوں کو ہراساں کرنا، یا یکطرفہ طور پر خود یہ سرگرمیاں کرنا غیر قانونی ہے۔ دنیا بیجنگ کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ بحیرہ جنوبی چین کو اپنی بحری سلطنت کے طور پر چلائے۔
گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین میں جزائر تک چین کی رسائی کو روکنے کی کوشش کی تو اس سے خوفناک جنگ جنم لے گی۔گلوبل ٹائمز کاالزام ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا بحیرہ جنوبی چین میں کئی چٹانوں پر مصنوعی جزیرے تیار کر کے وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کر رہا ہے۔چین تمام بحیرہ جنوبی چین کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جبکہ تائیوان اور ویت نام سمیت علاقے کے کئی دوسرے ممالک چین کے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔2017 ء سے امریکی انتظامیہ نے بحیرہ جنوبی چین میں چینی کارروائیوں پر سخت موقف اپنائے رہا ہے اور اپنے بحری جہازوں کو ان علاقوں میں بھی بھیجا لیکن اس نے کبھی بھی چین کی ان جزائر تک رسائی کو روکنے کی بات نہیں کی ہے۔اس کی شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا اپنی تما تر کو ششوں کے باوجود چین سے برتری حاصل کر نے میں یکسر ناکام رہا ہے۔لیکن علاقے میں جنگ کے خطرات میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے۔