عید قرباں کس لیے…؟

182

عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کر کے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرامؓ نے اسی کے بارے میں نبیؐ سے پوچھا:
یہ قربانی کیا ہے؟ یا رسول اللہ!
ارشاد فرمایا:
یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت ہے۔ (ابن ماجہ)
بے شک ہر سال مسلمانانِ عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کرکے جاں نثاری اور فدائیت کے اس بے نظیر واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال پہلے عرب کی سرزمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا… کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہوگا وہ منظر جب ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نوخیز لخت جگر سے کہا:
’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، بتا تیری کیا رائے ہے؟‘‘ (الصافات 102)
اور لائق فرزند نے بے تامل کہا:
’’اباجان! آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ (الصافات 201)
اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور تعمیل حکم کے لیے اس پر تیز چھری پھیردی جائے اور ایک ضعیف اور رحم دل باپ نے اپنے محبوب لخت جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے تیز چھری پھیر دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے۔
اطاعت و فرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ندا آئی:
’’اور ہم نے انہیں ندا دی کہ اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ اور اس وقت ایک فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ایک مینڈھا پیش کیا کہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کریں اور اللہ نے رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کردی کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسی دن جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر اس بے نظیر قربانی کی یاد تازہ کریں‘‘۔ (الصافات 104-106)
’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دیکر اس (نوعمر بچے) کو چھڑالیا‘‘۔ (الصافات 107)
بڑی قربانی سے مراد قربانی کی یہی سنت ہے جس کا اہتمام ہر سال اسی دن مسلمانان عالم دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں اور لاکھوں مسلمان تو مکے کی اس سرزمین پر اس سنت کو تازہ کرتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
ابراہیم علیہ السلام سے نہ تو اس قربانی کا یکایک مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ وہ یکایک اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے بلکہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی یادگار ہے۔ حیات ابراہیم علیہ السلام کو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں۔ اللہ کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت اور آسائش سے محروم ہوئے، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے محروم ہوئے، خاندانی گدی سے محروم ہوئے، وطن عزیز سے نکلنا پڑا۔ اللہ ہی کی خاطر آتش نمرود میں بے خطر کود کر آپ نے اللہ کے حضور اپنی جان نذر کر دی اور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آپ و گیاہ ریگستان میں لاکر ڈال دیا اور جب یہی بچہ ذرا سن شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہر سہارے اور تعلق سے کٹ جائو اور مسلم حنیف بن کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو۔
’’جب ان ان کے ربّ نے کہا، مسلم ہوجا تو اس نے بے تامل کہا ’’میں ربّ العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘۔ (البقرہ 131)
اسلام کے معنی ہیں کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کرسکتا ہے جو واقعتا اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو، جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کردیا ہو۔
اگر آپ کی زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے کہ آپ اللہ کے مسلم اور وفادار ہیں اور آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو آپ محض چند جانوروں کا خون بہاکر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کرسکتے۔ اور اس عہد میں پورے نہیں اتر سکتے جو قربانی کرتے وقت آپ اپنے اللہ سے کرتے ہیں۔
قربانی کرتے وقت آپ جو دعا پڑھتے ہیں وہ دراصل وفاداری اور جاں نثاری کے انہی جذبات کا اظہار ہے:
’’میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب ربّ العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں، خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے‘‘۔ (الانعام 163-164)
پھر سپردگی کی عجیب کیفیت کے ساتھ جانور کے گلے پر تیز چھری پھیرتے ہوئے آپ کہتے ہیں:
اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! تو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمدؐ کی قربانی قبول فرمائی۔
دراصل اسی واقعے کو تازہ کرنا اور انہی جذبات کو دل و دماغ پر حاوی کرنا قربانی کی روح اور اس کا مقصد ہے۔ اگر یہ جذبات اور ارادے نہ ہوں، اللہ کی راہ میں قربان کی آرزو اور خواہش نہ ہو، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کردینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہو تو محض جانوروں کا خون بہانا، گوشت کھانا اور تقسیم کرنا قربانی نہیں ہے، بلکہ گوشت کی ایک تقریب ہے جو ہر سال آپ منالیا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کردیا۔ اللہ کو نہ جانوروں کے خون کی ضرورت ہے نہ گوشت کی۔ اس کو تو اخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کے وہ جذبات مطلوب ہیں جو آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون، اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (الحج 37)
یہی تقویٰ اور اطاعت و فرماں برداری کا جوہر قربانی کی روح ہے اور اللہ کے یہاں صرف وہی قربانی شرف قبول پاتی ہے جو متقی لوگ اطاعت اور فرماں برداری و جاں نثاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
اللہ کا دین آپ کی پوری شخصیت اور آپ کی پوری زندگی چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کا جوڑ نہ لگائیں۔ جن برگزیدہ بندوں کی سنت کو آپ تازہ کررہے ہیں، انہیں دیکھیں کہ وہ کس طرح زندگی کے ہر معاملے میں مسلم حنیف تھے۔ اللہ سے اسلام اور بندگی کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسلام کی کیا تصویر پیش کرتی ہے، ان کی زندگی کو آپ بار بار پڑھیں اور ذی الحجہ کے مہینے میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھیں اور اپنے دل و دماغ اور شخصیت اور معاشرے پر ان جذبات اور کیفیات کو طاری کرنے کی کوشش کریں جو اس پاکیزہ زندگی میں آپ کو نظر آئیں ورنہ قربانی کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ گوشت کھانے اور کھلانے کے لیے آپ ایک جشن منارہے ہیں۔