اداروں کی ملی بھگت سے پورا کراچی مویشی منڈی میں تبدیل

107

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت سندھ کے محکمہ بلدیات کی عدم دلچسپی اور کے ایم سی سمیت متعلقہ اداروں کی چشم پوشی کی وجہ سے پورے کراچی کو مویشی منڈی میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کے نتیجے شہر کی مختلف سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہو رہا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کے پاس مویشی منڈیوں کی خصوصی اجازت دینے اور بغیر اجازت منڈیاں قائم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) 2013 ء کے تحت اختیارات موجود بھی ہیں ‘محکمہ ویٹرنیری کے منڈیاںنہ لگانے سے اے ایم سی کو 5کروڑروپے کا نقصان ہوا۔ خیال رہے کہ ضلعی انتظامیہ یا ساتوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو خلاف قانون سرگرمیوں پر فوری کارروائی کرنے یا کرانے کا اختیار حاصل ہے لیکن تمام اضلاع کے انتظامی افسران نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جبکہ کمشنر کراچی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ شہر کے تقریباً ہر علاقے میں قائم ان عارضی مویشی منڈیوں کے بارے میں ” جسارت ” کے ایک جائزے کے مطابق چونکہ بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ ویٹرنیری نے من پسند ٹھکیدار کو بھینس کالونی لانڈھی میں ٹھیکا دلانے کی کوشش میں ناکامی اور محکمہ ویٹرنری کے سینئر ڈائریکٹر اور دیگر عملے کے خلاف اینٹی کرپشن پولیس کے مقدمے کے بعد مذکورہ محکمے نے مویشی منڈیوں کے قیام کے لیے دلچسپی نہیں لی‘ غیر قانونی منڈیوں کے خلاف محکمہ انسداد تجاوزات نے مبینہ ملی بھگت سے اپنا قانونی کردار ادا کرنے سے گریز کیا۔ اس ضمن میں بلدیہ عظمیٰ کے سینئر ڈائریکٹر انسداد تجاوزات بشیر صدیقی نے بتایا ہے کہ چونکہ تمام منڈیاں متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی اجازت اور ( این او سی ) سے لگائی گئی ہیں اس لیے وہ انہیں ہٹانے کا اختیار نہیں رکھتے۔ جبکہ سینئر ڈائریکٹر ویٹرینری سیف عباس حسنی نے موقف اختیار کیا کہ ہمارا محکمہ ویٹرینری ہے اور ہمارے اختیارات محدود ہیں اس لیے غیر قانونی اور دیگر منڈیوں کے معاملات میں ہم کسی بھی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں رکھتے۔ان سے جب دریافت کیا گیا کہ بلدیہ کی بجٹ دستاویزات میں عارضی مویشی منڈیوں سے 5 کروڑ روپے آمدنی کا ذکر ہے‘ وہ کس طرح ہوا کرتی ہے تو انہوں نے کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد نے کے ایم سی سے منظور شدہ مقامات کے سوا مختلف مقامات پر مویشی منڈیوں کے قیام پر پابندی عاید کردی تھی تاہم کے ایم سی کے متعلقہ محکموں نے اس پابندی پر عمل درآمدکرانے کے بجائے اس کی خلاف ورزی کرانے میں مصروف ہیں۔