ٹی ٹوئنٹی میں بھی بولنگ کی کمزوری سامنے آگئی

150

پاکستان ایک روزہ میچوں میں شکت کے بعد ٹی ٹوئنٹی کے مقابلوں میں اترا تو پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں انگلینڈ کو 31 رنز سے ہرا دیا اور تین میچوں کی سیریز میں 1-0 سے برتری حاصل کر لی۔ اس شاندار فتح کا سہرا پوری ٹیم کوجاتا ہے مگر ان میں نمایاں کردار بابر اعظم اور محمد رضوان کی شاندار اوپننگ بیٹنگ اور شاہین شاہ آفریدی کا ابتدائی اوورز میں انگلینڈ کے دو کھلاڑیوں کو جلد آئوٹ کرنا ٹیم کی جیت میں اہم کردار رہا۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بلے بازی کی دعوت دی اور انگلینڈ کی یہی منفی سوچ ان کی شکسکت کی بنیاد بنی۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کی پہلی وکٹ کی شراکت میں 150 رنز بنے جو صرف 14.4 اوورز مٰیں بنائے گئے اس موقع پر محمد رضوان 41 گیندوں پر 63 رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ انکی اننگ میں ایک چھکا اور آٹھ چوکے شامل تھے۔ بابر اعظم نے صرف 49 گیندوں پر شاندار 85 رنز بنائے ان کی اننگ میں 3 چھکے اور 8 چوکے شامل ہیں۔ پاکستان نے مقررہ 20 اوورز میں 4 وکٹ پر 232 رنز بنائے۔ انگلینڈ کی شروعات اچھی نہ رہی ڈیوڈ ڈھان 1 اور جونی بیر سٹوو 11 رنز بنا کر جلد ہی پویلین لوٹ گئے اس کے فورا بعد معین علی بھی ایک رن بنا کر چلتے بنے، جیسن رائے بھی 82 کے مجموعی اسکو پر 32 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔ لیونگ اسٹون تن تنہا پاکستانی بالرز کا بہترین دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور صرف 43 گیندوں پر شاندار سنچری بنا ڈالی ان کی اننگ میں 9 چھکے اور 4 چوکے شامل تھے ان کی یہ شاندار اننگ انگلینڈ کو شکست سے تو نہ بچا سکی مگر میچ کو بہت زیادہ دلچسپ بنا دیا تھا اور یکطرفہ نہ ہونے دیا۔ پاکستان کی یہ شاندار فتح ان کی بہترین بیٹنگ کی مرہون منت ہی۔ مگر پاکستان کو اپنی بولنگ پر توجہ دینی ہوگی۔ شاہین آفریدی، حارث رئوف اور حسن علی لگتا ہے پاکستان کے تینوں فارمیٹ کے ریگولر بولر بنے ہوئے ہیں۔ اور شاداب خان ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے ریگولر بولر لگتا ہے مصباح الحق، وقار یونس اور بابر اعظم کہ ان چار بولر کے علاوہ اور دوسرے کوئی بولر نظر نہیں آتے، پاکستان یہ میچ جیت تو گیا مگر بولنگ ایک بار پھر سوالیہ نشان چھوڑ گئی، شاداب خان نے اپنے 4 اوور میں 13 رنز فی اوور کی ایوریج سے 52 رنز دیے۔ حارث رئوف نے 11 رنز کی اوسط سے اپنے 4 اوور میں 44 رنز دیے۔ دنیا کی ہر ٹیم اپنے فاسٹ بولرز کو Rotation پالیسی کے تحت کھلاتی ہے کہ کوئی فاسٹ بولر مسلسل کھیل کر تھک نہ جائے۔ آسٹریلیا اس کی زندہ مثال ہے، انگلینڈ نے دوسرا میچ بہت آسانی کے ساتھ پاکستان کو 45 رنز سے ہرا کر سریز 1-1 سے برابر کر دی، پورے میچ کے دوران پاکستانی بولرز اور بیٹسمین انگلینڈ پر دبائو ڈالنے میں ناکام نظر آئے۔ اسی میچ میں پاکستان نے وہی غلطی کی جو انگلینڈ نے پہلے میچ میں کی تھی ٹاس جیت کر مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دینا، یہ بات شائقین کرکٹ کی سمجھ سے بالاتر ہے جب پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 232 رنز بنا کر شاندار فتح حاصل کی تھی تو اس میچ میں جب ٹاس جیتنے کے باوجود خود بیٹنگ نہ کرکے انگلینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دینا اس کا جواز صرف مصباح الحق، وقار یونس اور بابر اعظم ہی بتا سکتے ہیں۔
جیسن رائے، ڈیوڈ ملان کو جلد ہی عماد وسیم نے پویلین کی راہ دکھا دی ۔ مگر پھر جوز بٹلر اور معین علی نے تیسری وکٹ کے لیے 31 گیندوں پر 47 رنز کی شاندار شراکت بنا کر انگلینڈ کی پوزیشن کو مستحکم کر دیا معین علی صرف 16 گیندوں پر 36 رنز بنا کر آئوٹ ہوئے، محمد حفیظ کے بارے میں یہ رائے مستحکم ہے کہ وہ بائیں ہاتھ کے بیٹسمینوں کو اپنی بولنگ سے مشکلات میں ڈالتے ہیں، یہ بات ماضی میں بھی بہت دفعہ ثابت ہو چکی۔ جب معین علی جو بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بیٹسمین ہیں پاکستان بولرز کو جم کر کھیل رہے تھے تب بابر اعظم نے محمد حفیظ سے گیند نہیں کرائی، اور محسن علی اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جوز بٹلر نے 59 اور لیونگ اسٹون 38 رنز کی مدد سے انگلینڈ نے پاکستان کو نسبتاً مشکل وکٹ پر 201 رنز جیت کے لیے دیے، حارث رئوف مجموعی طور پر اپنے دو میچوں میں 8 اوورز میں 92 رنز دے چکے ان کی اس کارکردگی پر ان کو مسلسل کھلایا جانا ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے خراب ان چیزر رہا ہے اور اپنی بیٹنگ کے دوران پاکستانی بیٹسمین کسی بھی وقت میچ میں انگلینڈ کے بولرز پر دبائو ڈٓلنے میں ناکام رہے اس طرح پوری ٹیم اپنے مقررہ 20 اوورز میں 9 وکٹ پر صرف 155 رنز ہی بنا کر 45 رنز کے بڑے مارجن سے میچ ہار گئی، 17 اکتوبر سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے، ورلڈکپ جیسے ایونٹ میں تجربہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے کیونکہ تجربہ کار کھلاڑی دبائو میں بھی اپنے اوسان خطا نہیں ہونے دیتا، اس ٹیم کو اب بھی شعیب ملک جیسے تجربے کار کھلاڑی کی ضرورت ہے مڈل آرڈر میں شعیب ملک ایک بہترین میچ فنشر ہیں وہاب ریاض کے بھی تجربے سے ٹیم کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے بعد پاکستان ٹیم کا دورہ ویسٹ انڈیز 26 جولائی سے شروع ہورہا ہے جہاں 3 ٹی ٹوئنٹی اور 3 ٹیسٹ میچ کھیلے جائیں گے ویسٹ انڈیز کی ٹیم اس وقت زبردست فارم میں ہے اور ورلڈکپ جیتنے کے لیے فیورٹ قرار دی جارہی ہے۔ ابھی اسی نے آسٹریلیا کو آسٹڑیلیا کی سرزمین میں ٹی ٹوئنٹی میں 5 میچوں کی سیریز میں 4-1 سے شکست دی۔ یہ ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے ورلڈکپ کے لیے ایک بہترین کامبینیشن کے ساٹھ ٹیم تشکیل دینے کا ۔