افغانستان کی پُراسرار صورتحال اور خدشات

290

اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کے حالیہ امریکا دورے کی ناکامی کے پرت کھلناشروع ہوگئے ہیں۔ وائٹ ہاس میں میڈیاکے سامنے اشرف غنی کاپہلے سے لکھی ہوئی تحریرکا بد دلی سے پڑھنااورجوبائیڈن کے چہرے کی خاموشی، اس چندمنٹ کی چغلی کھارہی تھی کہ امریکی صدرخودپرجبر کرکے بیٹھے ہوئے ہیں اورواپسی پرعبداللہ عبداللہ کایہ بیان بڑامعنی خیز ہے کہ افغانستان تقسیم کے دہانے پر ہے اوریہ دورے کی ناکامی کا منہ بولتاثبوت ہے کہ امریکانے مستقبل کے افغانستان سے مکمل طورپرہاتھ اٹھالیاہے۔ممکن ہے کہ امریکااور اس کے اتحادیوں کی یہ پراسرارخاموشی کسی نئے طوفان کاپیش خیمہ ہولیکن تاحال تمام عالمی میڈیاکے معروف تجزیہ نگاربھی دل تھام کر بیٹھے اس پراسرارخاموشی کی گرہ کھولنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ادھرپاکستانی سرحدچمن سے متصل اہم تجارتی گزرگاہ افغان علاقے ویش منڈی میں طالبان کے جھنڈے لہرانے شروع ہوگئے ہیں۔ویش منڈی قندھار اور جنوب مغربی صوبوں کوپاکستان سے جوڑتی ہے۔اس نئی پیش رفت کے بعدسرحدی گزرگاہ بابِ دوستی کوہرقسم کی آمدو رفت کے لیے بند کرکے سیکورٹی کومزیدسخت کردیاگیاہے اوروہاں کسی کوتصاویر بنانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ۔افغان طالبان اور عام پاکستانی شہریوں کی چند وڈیوزمیں گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں پرسوارطالبان ویش منڈی کے علاقے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے بھی ویش منڈی کاکنٹرول حاصل کرنے کی تصدیق کردی ہے۔ طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے عالمی میڈیا کے ذریعے ویش منڈی کے تاجروں اورعوام کویقین دہانی کروائی ہے کہ جلد ہی پاکستان اورافغانستان کے درمیان ہونے والی تجارت اورٹریفک کوبحال کردیاجائے گا۔ مقامی صحافیوں کے مطابق طالبان نے13جولائی منگل کی شب ویش منڈی کاکنٹرول حاصل کرلیاتھا۔
ایک وڈیومیں لوگ آپس میں بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ’’کاروان پہنچ گئے۔سفید جھنڈے والے آگئے ہیں‘‘۔ ایک وڈیومیں بچے کسی بڑے سے پوچھ رہے ہیں کہ’’وہ بولدک تحصیل کولے سکتے ہیں یانہیں۔ اسپین بولدک افغانستان کا چمن کے قریب ایک اسٹریٹیجک علاقہ ہے اورجوویش منڈی سے شمال میں قندھارکی جانب 12 سے 15 کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ہے۔ اس وڈیومیں ایک طالبان خوشی کااظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہاہے کہ پاکستان کے ساتھ اس سرحدی علاقے کواللہ نے منافقین کے وجود سے پاک کردیاہے جبکہ بلوچستان کے وزیرداخلہ کے مطابق پاکستان کی جانب سے بارڈرکومکمل طورپرہرقسم کی آمدورفت کے لیے بندکردیاگیاہے۔
ادھر13 اور 14 جولائی کوتاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے سرجوڑے اور افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے ہونے والی صورتحال پرآئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے نمائندوں نے افغان حکومت کے ساتھ ملاقات میں موجودہ صورتحال اورطالبان کی جانب سے مکمل قبضے کے خدشات پربات چیت بھی کی۔ ایس سی اومیں افغانستان رابطہ گروپ2018میں تشکیل دیاگیاتھاجس کامقصدافغانستان میں امن،استحکام،اقتصادی ترقی اورباہمی خانہ جنگی کاخاتمہ جیسے اہداف کاحصول ہے۔
چین کاوسائل سے مالامال صوبہ سنکیانگ اورافغانستان کے بیچ 8 کلومیٹرطویل سرحد ہے۔ افغان صورتحال کے پیش نظرخاص مقصدکے تحت یہ پروپیگنڈہ بھی کیاگیاکہ چین کو خدشہ ہے کہ اگرطالبان اقتدارمیں آئے تواس سے سنکیانگ میں علیحدگی پسند ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک کوپناہ اورمدد مل سکتی ہے۔ یہ ایک چھوٹاعلیحدگی پسندگروہ ہے جومغربی چین کے سنکیانگ صوبے میں آزاد مشرقی ترکستان قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سنکیانگ صوبے میں چین کی ایک نسلی مسلم اقلیت ایغور آباد ہے۔ امریکی دفترخارجہ نے 2006ء میں اس گروہ کو ایغوروں کاایک خطرناک علیحدگی پسند گروہ قراردے کر اسے دہشتگردتنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا مگر گزشتہ سال نومبر میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیونے یہ پابندی ہٹادی تھی۔ چین افغانستان کوبھی اپنے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے میں شامل کرناچاہتاہے اور افغانستان میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کے امکانات پرنظررکھے ہوئے ہے اور ایک اطلاع کے مطابق طالبان سے اس سلسلے میں بعض اہم میٹنگزبھی ہوچکی ہیں۔ پچھلے دنوں طالبان ترجمان سہیل شاہین نے چین کے سب سے بڑے اخبارکواپنے انٹرویومیں یقین دلایاکہ وہ چین کوافغانستان کادوست مانتے ہیں اورافغانستان کی تعمیر نو کے چینی منصوبوں پرسرمایہ کاری کے لیے نہ صرف چینی سرمایہ بلکہ تمام چینی افرادکی مکمل حفاطت کی ضمانت دینے کوبھی تیارہیں اورسنکیانگ سے علیحدگی پسنداویغورجنگجوؤں کوافغانستان داخل نہیں ہونے دیں گے۔
ادھرطالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے چینی اخبارکے اس انٹرویوپرانڈیاکی پریشانی میں شدیداضافہ ہوگیاہے۔پچھلے دنوں طالبان کے ساتھ دوملاقاتوں کے بعدوہ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے اپنی مکاری سے طالبان کے دلوں میں دوستی اورہمدردی کاجذبہ پیداکرکے اپناالو سیدھاکرلیاہے۔انہوں نے طالبان کوافغانستان میں اپنی خدمات یاددلاتے ہوئے بتایاکہ ہم نے افغانستان میں انفراسٹرکچراوراداروں کی تعمیرنو کے لیے 3 ارب ڈالرسے زیادہ رقم خرچ کی ہے۔ بھارت نے افغان پارلیمانی عمارت اورملک میں ایک بڑاڈیم منصوبہ تعمیر کیا ہے۔ اس نے وہاں تعلیم اورتکنیکی معاونت کے منصوبے بھی قائم کیے ہیں۔ اسی دوران بھارت نے افغانستان میں قدرتی وسائل پرسرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ایسے ہی موقع پر بھارت نے طالبان کے اقتدارسنبھالنے کی قانونی حیثیت پربھی سوال اٹھاتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری کے متاثرہونے کاخدشہ بھی ظاہرکیاتھا۔ دراصل بھارت کوخدشہ ہے کہ طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعد پاکستان کے اثرورسوخ بڑھ جانے کے بعدوہ پاکستان پرنفسیاتی اور اسٹرٹیجک سبقت کھودے گا۔ یہی وجہ ہے سہیل شاہین نے اپنے انٹرویومیں بھارت کا قطعی کوئی ذکرنہیں کیابلکہ یہ تنبیہ ضرورکی کہ افغانستان کی سرزمین کوکسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
دوسری طرف روس کوخدشہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعدافغانستان میں خانہ جنگی کی بنا پر پورا وسطی ایشیامتاثرہوسکتا ہے۔ یعنی اگرخون بہے گاتواس کے قطرے ماسکوپربھی پڑیں گے تاہم ممکنہ سیکورٹی وجوہات کے پیش نظرروس طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات بنا رہا ہے۔ روسی اثرورسوخ میں رہنے والے ملک تاجکستان اورازبکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحدیں ہیں۔ روس کوخدشہ ہے کہ مستقبل میں خانہ جنگی کی بنا پرافغان سرحدوں پرانسانی اور سیکورٹی کابحران پیداہوسکتاہے لیکن طالبان کے ایک وفد نے بروقت روس کے دورے پریقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان میں کسی پیشرفت سے وسطی ایشیاکے علاقوں کوخطرہ نہیں ہوگا اورافغان سرزمین کو کسی ہمسائے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔ یادرہے کہ افغانستان کی تازہ ترین صورت حال نے سب کوششدرکرکے رکھ دیاہے۔
افغان فوج کاپے درپے طالبان کے سامنے ہتھیارپھینکنے کاعمل بھی شروع ہوچکاہے جس سے طالبان کامورال بلندیوں کوچھو رہا ہے۔ ماضی کی بنیادپرطالبان کی دہشت کااثربھی ہو سکتا ہے۔ یہی فوج جوگزشتہ 2 برس سے امریکی مددکے بغیرطالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف تھی اورشہرکے کسی ایک ضلع پربھی طالبان کوقبضہ کرنے نہیں دیاگیا۔اب یہ امر جہاں حیرت انگیزہے وہاں بڑاپراسراربھی ہے کہ درجن طالبان کے سامنے سیکڑوں فوجی کیوں ہتھیارڈال دیتے ہیں۔ ماضی کے برعکس اب طالبان ان کوجیب خرچ اورکلاشنکوف دے کر عزت واحترام سے رخصت کردیتے ہیں اورجس کے عوض یہ فوجی امریکیوں کاچھوڑاہواانتہائی قیمتی بھاری اورجدیداسلحہ طالبان کے حوالے کردیتے ہیں۔یہ عمل صرف جنوبی اور مشرقی صوبوں میں نہیں بلکہ شمالی اورمغربی افغانستان کے تاجک،ازبک اورترکمن صوبوں میں بھی جاری ہے جوحیران کن ہے۔یہاں ایک اورحیران کن پہلویہ بھی ہے کہ طالبان زیادہ تران اضلاع کارخ کررہے ہیں جہاں امریکیوں نے زیادہ جدید،خطرناک اورقیمتی اسلحہ چھوڑاہے۔ شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے بعض رہنما تویہ الزام بھی لگارہے ہیں کہ ان فوجیوں کویاتوکمانڈرکی طرف سے سرنڈرہونے کی ہدایات موصول ہوچکی ہیں یاپھران فوجیوں کارابطہ ہائی کمان سے منقطع ہوچکاہے۔ان حالات کابغورمطالعہ کیاجائے تویہ معاملہ

انتہائی پراسرارنظرآتاہے۔
ایک اورپراسرارعمل یہ بھی ہے کہ مشرقی اورجنوبی افغانستان کی نسبت شمالی اورمغربی افغانستان کے اہم اضلاع پرطالبان فتوحات کا جھندالہراتے چلے جارہے ہیں جس کی تصدیق عالمی میڈیابھی کررہاہے۔اگرپاکستان کی سرحدسے متصل پکتیا،پکتیکا،خوست یاجنوبی صوبوں جیسے قندھار،ہلمنداورزابل جیسے صوبوں میں ایساہوتاتوہمیں کچھ زیادہ حیرت نہ ہوتی لیکن ان علاقوں کے بجائے زیادہ اضلاع شمالی اورمغربی افغانستان پرطالبان کی قبضہ جاری ہے۔اسی طرح چین،پاکستان اورتاجکستان کی سرحدوں سے متصل صوبہ بدخشاں کے کئی اضلاع میں افغان فوجیوں نے ہتھیارپھینک کرطالبان کے حوالے کردیے ہیں حالانکہ گزشتہ دورمیں باوجودبہت کوشش کرنے کے بدخشاں طالبان کی دسترس میں نہیں آسکاتھالیکن اب اس تاجک صوبے کے بیشتراضلاع پرطالبان کاقبضہ ہوچکاہے جبکہ گورنراور دیگرحکام صوبائی ہیڈکوارٹرخالی کرکے کابل فرارہوچکے ہیں۔
اسی طرح تاجکستان کی سرحدسے جڑاہواشمالی صوبہ قندوزکے اہم مقام شیرخان پرطالبان کامکمل قبضہ ہوگیاہے۔جوزجان اورفریاب جیسے مغربی ازبک اورترکمن صوبوں میں کئی اہم اضلاع طالبان کے زیرقبضہ آگئے ہیں۔تخارجوطالبان حکومت کے زمانے میں مشرقی اتحادکاہیڈکوارٹرتھا،وہاں کے بھی ایک ضلع پرطالبان نے قبضہ کرلیاہے۔اسی طرح ایرانی بارڈرسے متصل علاقے بھی طالبان کے زیر نگوں ہوچکے ہیں حالانکہ انہوں نے ابھی تک کابل،جنوبی یامشرقی صوبوں پرقبضہ نہیں کیاہے۔یوں جنوب اورمشرق کی بجائے پہلے مغرب اورشمال میں افغان فوج کاسرنڈرہونااورطالبان کی فتوحات پراسراربھی ہیں اورسمجھ سے بھی بالاترہیں۔
افغان وزیردفاع اسداللہ خالدکاپراسراراندازسے منظرسے ہٹ جانابھی حیرت کاباعث بناہے۔اسداللہ خالدقندھاراورغزنی کے گورنررہنے کے بعداین ڈی ایس کا سربراہ تھا۔وہ گزشتہ دوبرس تک ڈٹ کرطالبان اورپاکستان کے خلاف کاروائیوں کے لیے مشہورتھااورخود فوجی یونیفارم پہن کر مختلف محاذوں پرکمانڈبھی کرتارہا۔اب پچھلے کئی دنوں سے وہ اچانک منظرنامے سے غائب ہوگیا۔اس کے علاقوں پرطالبان کاقبضہ ہورہاتھااورموصوف غائب تھا۔ کئی دنوں کے بعد پتا چلاکہ وہ اپنی بیماری کے علاج کے بہانے امریکا میں ہے۔
ادھرمکارہندومودی سرکارنے10اور11جولائی کوقندھار میں اپنے50کے قریب سفارتکاروں اورسیکورٹی عملہ کونکالنے کے لیے دوسی130طیاروں سے نکالنے کے عمل کے پیچھے اپنے آقائوں کے احکام کی تعمیل میں122ملی میٹرکے توپ خانے کے لیے80 ٹن گولہ بارودچھپاکرافغان فورسزکوپہنچانے کے منحوس عمل کوسرانجام دیا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اگلے ہی دن دواورآئی اے ایف سی17طیارے جے پوراورچندی گڑھ سے مزیداسلحہ لیکرکابل ائیرفیلڈپہنچے اور بھارتی ہتھیاروں سے لدے ٹرک کابل کی سڑکوں پربھی دیکھے گئے۔ معروف میڈیانے ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تصاویربھی جاری کیں۔ بھارتی طیاروں کوپاکستان سے بچنے کے لیے لمبے ہوائی راستوں کااستعمال ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس ہوائی روٹ کی بھی میڈیامیں تصاویرشائع ہوگئی ہیں۔ کیا کسی نے کسی ملک سے احتجاج کیاکہ ان کی فضائی حدودکومکار بنیے کواستعمال کرنے کی اجازت کیونکردی گئی۔ یادرہے کہ برطانیہ اورامریکایک جان دو قالب مانے جاتے ہیں۔اگرامریکاکوبغیراجازت گولہ بارودلیجانے والے امریکی جہازکوبرطانوی فضائی حدوداستعمال کرنے پرانتہائی سخت احتجاج کاسامناکرناپڑاتھاتوپھرکوئی وجہ نہیں کہ سفارتی لیول پراس خطرناک عمل کوروکنے کے لیے فوری اقدام نہ کیے جائیں کہ ان کاتعلق پاکستان کی سلامتی سے وابستہ ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ پاکستان کاسب سے بڑاخدشہ یہ ہے کہ افغانستان میں صورتحال خراب ہونے سے اس کی سرحدپرافغان پناہ گزین کادباؤبڑھ سکتا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجرجنرل بابرافتخارنے کہا ہے کہ اگرافغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تواس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشے کے پیش نظرپاکستانی فوج ہرصورتحال کے لیے تیارہے۔