دہلی فسادات : پولیس خود مجرم ثابت

دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو منظرعام پر آئے ہوئے پورا ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب و وجوہات کو لے کر تقریباً 10 فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش ہوئی تھیں، تاہم دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ اور قانونی حیثیت اس کو دیگر رپورٹس سے منفرد کرتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس نہ صرف فسادات اور شرپسندوں کو روکنے میں ناکام رہی بلکہ دنگوں کے دوران شرپسندوں کو پوری طرح خاموش تماش بین بن کر اپنی تائید اور حمایت کا ثبوت بھی دے رہی تھی۔ محکمہ پولیس کی سب سے بنیادی ذمے داری قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے، کسی بھی قسم کی بدامنی کے اندیشوں سے سماج کو محفوظ رکھنا، تاہم اگر کہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو واقعے کی ایماندارانہ تفتیش کے ساتھ ہی ملزمان کو قانونی گرفت میں لینا، کیوں کہ پولیس کی تفتیش ہی متاثرین کو انصاف دلانے کی سب سے اہم کڑی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کی لاپروائی اور غلط تفتیش کے بعد بھی انصاف حاصل کرنا ناممکن نہیں ہوتا لیکن تاخیر ضرور ہوتی اور یہ تاخیر بھی انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہی ہے۔
تازہ معاملہ ناصر کی ایف آئی آر سے متعلق دہلی عدالت میں ہے، جس میں عدالت نے نہ صرف دہلی پولیس پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا بلکہ دہلی فسادات کی تفتیش میں دہلی پولیس کے کردار پر بھی سخت تبصرے کیے ہیں۔ 24 فروری 2020ء کو ناصر پر شرپسندوں نے جان لیوا حملہ کیا تھا، اس حملے میں ناصر کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ ناصر نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے دہلی پولیس کو اپنا شکایت نامہ دیا تھا، پولیس شکایت میں ناصر نے نریش تیاگی، سبھاش تیاگی، اتم تیاگی، سشیل، نریش گوڑ و دیگر کے خلاف نامزد رپورٹ درج کرائی تھی لیکن دہلی پولیس نے ناصر کی شکایت پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی بلکہ 25 فروری 2020ء کے دن ایک دیگر ایف آئی آر موہن پور موج پور کے معاملے میں درج کی تھی، اسی کے ساتھ اس شکایت کو بھی منسلک کردیا گیا۔ ناصر کے ساتھ حادثہ شمالی گھونڈا میں پیش آیا تھا، عدالت کے سوالات میں ایک سوال یہ تھا کہ سات متفرق معاملات میں گولی لگنے اور زخمی ہونے کی شکایت و ثبوت ہونے کے باوجود پولیس ایف آئی آر میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 307 اور انڈین آرمس ایکٹ کی دفعات شامل کیوں نہیں کی گئیں؟ لیکن افسوس دہلی پولیس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دہلی پولیس کی تفتیش اور ایمانداری پر پہلی بار عدلیہ نے سخت تبصرہ نہیں کیا ہے۔ گزشتہ سال دہلی میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کے مسلم منفی کردار کو دیگر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹوں کے علاوہ عدلیہ نے بھی شروع ہی سے سوالوں کے گھیرے میں رکھا تھا، حتی کہ فسادات کے دوران زخمیوں تک ایمبولینس پہنچانے کے لیے بھی رات گئے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاکر حکم نامہ حاصل کرنے کے لیے سماجی کارکن مجبور ہوئے۔ یہ مجبوری شرپسندوں نے نہیں بلکہ دہلی پولیس کے افسران نے کھڑی کی تھی۔ سکھ مخالف فسادات پر دہلی ہائی کورٹ میں تقریباً 3 سال پہلے 17 دسمبر 2018ء کو سی بی آئی بنام سجن کمار ودیگر کا فیصلہ آنے کے بعد دہلی پولیس کی شبیہ بری طرح مجروح ہوئی تھی، ہائی کورٹ کے مطابق دہلی پولیس نے فسادیوں کو بچانے کی پوری پوری کوشش کی تھی نیز ایماندارانہ تفتیش کرنے میں بھی پوری طرح ناکام ہوئی تھی۔
کسی بھی شہری یا انسان کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو یہ ناکامی بلاشبہ حکومت و پولیس کی ہوتی ہے لیکن اس ناکامی کا بھارت میں کوئی احتسابی نظام آج تک قائم نہیں ہوا۔ حکومتیں سرکاری خزانے میں جمع عوام کے ٹیکس سے معاوضہ ادا کرنے ہی کو اپنی ذمے داری سمجھ لیتے ہیں جس کا مقصد بھی سیاسی فائدہ ہی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یہ فسادات بھارت کے دارالحکومت میں ہوتے رہے اور کئی دن تک جاری رہے، تاہم ان فسادات کو روکنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش مرکزی یا دہلی حکومت کی جانب سے نہیں کی گئی۔ فسادات شروع ہونے والے دن دہلی پولیس کے سینئر افسران کے سامنے دھمکی دی گئی اور ماحول پوری طرح سے خراب کیاگیا تھاجس سے فسادات شروع ہوئے لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دہلی پولیس کے اعلیٰ افسران ان وڈیوز کی معلومات سے انکار کرتے ہیں، جس کے بعد ہائی کورٹ کے فاضل جج نے وہ وڈیوز دکھائیں جو میڈیا و سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپا کئے ہوئے تھیں۔ آگ لگانے و قتل غارت گری کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کی خبریں ہر طرف پھیل گئیں تاہم پولیس کے ذریعے کرفیو لگانے یا فسادیوں پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ یہی وجہ رہی کہ 4 سے 5 دن تک بھارتی دارالحکومت میں بھی فسادات پر قابو نہیں پایا گیا جس میں تقریباً 53 افراد کی موت اور ہزاروں کروڑ کا مالی نقصان ہوا۔ مخصوص اقلیت یعنی مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہوئے ان کے مذہبی مقامات کو تباہ و برباد کیا گیا ۔
بہت سی وڈیوز اور فوٹوز بھی منظر عام پر آئیں، جن میں یہ صاف صاف ظاہر ہورہا تھا کہ فسادات کے دوران پولیس فسادیوں کی مدد کررہی ہے۔ یہ مدد کہیں فسادیوں کو اپنے سامنے مسلمانوں پر حملے کے دوران خاموش تماش بین بن کر دیکھتے رہنے کی صورت میں تھی تو کہیں فسادیوں کے ساتھ پولیس بھی مسلمانوں پر پتھراؤ یا لاٹھیاں چلارہی تھی۔ مسلم اقلیت کے بچوں کو وردی پہنے ہوئے پولیس کے افراد آزادی دلانے اور حب الوطنی کا سبق یاد کراتے ہوئے لاٹھیاں برساتے ہوئے نظر آئے۔ گھر و مارکیٹ 3، 4 روز تک جلتی رہی لیکن آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ شرانگیز تقریریں کرنے والوں کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دینے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج کا اگلے ہی دن ٹرانسفر ہوجاتا ہے اور ان کے احکامات کو بالائے طاق رکھ کر پولیس ایک سال گزرنے کے بعد بھی ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرتی ہے۔ دہلی پولیس نے فسادیوں کو بچانے کی کوشش کیوں کی اور قانونی و دستوری فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کن اسباب و وجوہات کی بنا پر ہوئی یہ حقیقت تو شاید عدالت میں کبھی ثابت نہ ہوسکے لیکن عدلیہ نے پولیس کی ناکامیوں اور بے ایمانی پر سے پردہ تو اٹھاہی دیا ہے۔ فسادات کے دوران اور پھر فسادات ختم ہونے کے بعد بھی مسلمانوں نے پولیس کی یکطرفہ کارروائی و زیادتیوں کو لے کر شکایتیں کیں۔ متاثرین نے دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو دیے گئے بیانات میں پولیس کے خلاف بہت سے الزامات لگائے جن میں پولیس کا ملزمان کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج کرنے سے انکار، پولیس کے ذریعے شکایت کرنے والوں پر تھانے میں صلح کرنے کا دباؤ نیز فسادات کے دوران خاموش تماشائی بنے رہنا، یا اپنی ذمے داری و فرائض کو جان بوجھ کر انجام نہ دینا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی یا فرقہ وارانہ مفادات کے لیے ہندو مسلم فسادات کرانے کی کوشش پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں، لیکن اگرملک کے دارالحکومت میں بھی پولیس یہ فسادات کئی روز گزرجانے کے بعد بھی روکنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ پولیس کے کام کرنے کے طریقوں پر، عدلیہ بھی غلط طریقے سے جانچ کرنے کے الزامات پر اپنی مہر سے تصدیق کرتے ہوئے 25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرتی ہے تو پولیس محکمہ کو خود اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ان حالات میں دہلی پولیس کو ان فسادات کی جانچ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق نہیں بچتا بلکہ کسی دیگر آزاد ذریعے سے یا کسی ایماندار جج کی رہنمائی میں مکمل جانچ ہونی چاہیے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔