افغانستان کو شام بنانے کا کھیل

331

نئی دہلی میں افغان سفیر فرید ماموند زئی نے بھارتی این ڈی ٹی وی چینل سے بات چیت میں یہ تسلیم کیا ہے کہ افغانستان میں اس وقت حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت ناکام ہو جاتی ہے تو ضرورت پڑنے پر وہ بھارت سے فوجی امداد طلب کر سکتے ہیں۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آنے والے برسوں میں اور زیادہ فوجی امداد چاہیے ہوگی۔ تاہم ایک سوال کے جواب میں نئی دہلی میں افغان سفیر نے کہا کہ اس موقع پر وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ بھارتی فوجی افغانستان میں لڑائی کا حصہ بنیں۔ شاید اس مرحلے پر ہماری جنگ لڑنے کے لیے افغانستان میں بھارت کے فوجیوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسے وقت میں جب امریکا سمیت تمام بیرونی فورسز افغانستان سے نکل رہی ہیں تو پھر بھارت سے وہ کس نوعیت کی عسکری مدد چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ افغان فضائیہ کو بھارت کی مدد ضرورت ہوگی اور اس شعبے میں مزید مواقع تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ افغان پائلٹس کو ٹریننگ کی ضرورت ہوگی اور بھارت اپنے ملک میں افغان فوجیوں کو بہتر تربیت فراہم کر سکتا ہے۔ بھارت نے ہمیں پہلے ہی سے تقریباً ایک درجن ہیلی کاپٹرز فراہم کر رکھے ہیں، امریکا نے بھی جو دیے ہیں وہ ہماری فوج کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بھارت افغان فورسز کو عسکری ساز و سامان فراہم کرتا رہا ہے۔ افغان سفیر نے کہا کہ بھارت نے افغان فوج کی تربیت کا انتظام کرنے کے ساتھ ہی ہمارے فوجیوں کو وظائف دے کر کافی مدد کی ہے۔ بھارت ہر برس تقریباً ایک ہزار افغان طلبہ کو بھی اسکالر شپ فراہم کرتا ہے۔ بھارت نے متعدد دیگر تعمیراتی کاموں کے ساتھ ساتھ ہماری پارلیمان کی نئی عمارت تعمیر کی، اور سلمیٰ اور شہتوت جیسے بڑے ڈیم بھی تعمیر کیے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں مستقبل میں بھی بھارتی مدد کی توقع ہے۔ اس پوری خبر کے ساتھ اگر عمران خان کے دورہ ازبکستان کو جوڑ کر پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چند دن قبل یہ خبر آئی تھی کہ امریکا نے ازبکستان تاجکستان اور ترکمانستان کو بھاری پیشکش کر کے ان سے درخواست کی ہے یہ تینوں ممالک امریکا کو فوجی اڈے دیں تاکہ طالبان کا خاتمہ کیا جائے۔ ان ممالک کو اربوں ڈالر کے معاشی پیکیج کا لالچ دیا گیا اور امریکا کی پیشکش قبول نہ کرنے کی صورت میں ان ملکوں کو عالمی معاشی پابندی اور معیشت کو تباہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
بھارتی سفیر کا تازہ بیان اور امریکا کی منصوبہ بندی یہ ہے کہ افغان طالبان کو ایک مرتبہ بڑی جنگ کی جانب دھکیل کر غنی حکومت کو بچانے کے لیے شام کے بشار الاسد کی طرز پر صرف ہوائی حملہ کیا جائے گا۔ اس جنگ کے لیے ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان شامل ہوں گے اور امریکا و بھارت ہدف پر حملہ کریں گے اس کے لیے امریکا نے افغانستان میں ایک لشکر قائم کر دیا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے بہت بھاری تعداد میں شام کی طرز پر ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔
اس سلسلے میں شام کا ایک جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شام میں اس جنگ میں انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا برطانیہ میں قائم تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے شام میں موجود ذرائع نے مارچ 2018 تک شام میں 353,900 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جن میں 106,000 عام شہری ہیں۔ اس تعداد میں وہ 56,900 افراد شامل نہیں ہیں جو یا تو غائب ہیں یا پھر ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ اسی دوران خلاف ورزیوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے وی ڈی سی نے شام میں اپنے ذرائع کی مدد سے بین الاقوامی انسانی قانون کی متعدد خلاف ورزیوں کی خبر دی ہے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کو صدر اسد کی حکومت سے بیروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھیں۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ 2000ء میں اقتدار میں آئے تھے۔ مارچ 2011 میں جنوبی شہر دیرا میں پڑوسی عرب ملکوں کے ’عرب بہار‘ سے متاثر ہو کر جمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑا۔ حکومت نے اسے کچلنے کے لیے مہلک طاقت کا استعمال کیا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہونے لگا جن میں صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
مظاہروں اور انہیں دبانے کے لیے طاقت میں شدت آتی گئی۔ حزبِ مخالف کے حامیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور انہیں پہلے اپنے دفاع اور بعد میں سیکورٹی فورسز سے لڑنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ بشار الاسد کا کہنا تھا کہ مظاہرے ’بیرونی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی‘ ہے، اور عزم کیا کہ وہ انہیں کچل کر رہیں گے۔ تشدد پھیلتا چلا گیا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ جنگ کی وجہ سے لاکھوں اموات کے علاوہ کم از کم 15 لاکھ شامی مستقل معذروی کا شکار ہوئے ہیں، جب کہ 86 ہزار افراد ایسے ہیں جن کا کوئی عضو ضائع ہوا ہے۔
حکومت نے ملک کے اکثر بڑے شہروں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر ایس ڈی ایف کے باغیوں کا کنٹرول ہے۔ باغیوں کے قبضے میں سب سے بڑا صوبہ ادلب ہے جس کی آبادی 26 لاکھ ہے۔ ادلب کو ’غیر جنگی علاقہ‘ قرار دیا گیا ہے، لیکن حکومتی فوج اس پر یہ کہہ کر حملے کرتی رہتی ہے کہ یہاں القاعدہ کے جنگجو چھپے ہیں۔ ایس ڈی ایف اب رقہ پر بھی قابض ہے جو 2017 تک دولت اسلامیہ کا نام نہاد دارالخلافہ تھا۔ مشرقی غوطہ میں چار لاکھ کے قریب افراد 2013 سے حکومتی محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے 2012 کے جنیوا مراسلے کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں صلاح و مشورے سے عبوری حکومت قائم کی جائے۔ لیکن 2014 کے بعد سے اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں جنیوا 2 کہلائے جانے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ صدر اسد حزبِ مخالف سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں، جب کہ باغیوں کا اصرار ہے کہ پہلے اسد استعفا دیں۔ اسی دوران مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ روس نے ایک متوازی سیاسی عمل شروع کر کے امن مذاکرات کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔
آج یہی صورتحال افغانستان میں بنانے کے لیے امریکا اور بھارت سر گرم ہو چکے ہیں۔ طالبان کے ترجمان شاہین نے بھارت سے کہا ہے وہ ایسی صورتحال پیدا نہ کریں جس کے بعد بھارت کے لیے اپنا دفاع مشکل ہوجائے۔ بھارتی سلمیٰ اور شہتوت ڈیم نے طالبان کی بانہوں میں پناہ لے لی ہے۔ جی ہاں 290 ملین ڈالر کا بھارتی ڈیم سلمیٰ اور اسی مالیت کا شہتوت ڈیم جس پر بھارتی ’’را‘‘ کے سیکڑوں انجینئر کام کر رہے تھے وہ سب بھارت فرار ہو گئے ہیں اور اب یہ سب طالبان کی پناہ میں ہیں۔