افغانستان سے متعلق مؤثر حکمت ِعملی کی ضرورت

250

طالبان نے دو دہائی تک ایک سپر پاور اور اس کے ساتھ 54 ممالک کے خلاف مزاحمت کی ہے، جس کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے ناکام ہوکر لوٹ رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کا سب اہم موضوع طالبان اور افغانستان ہیں۔ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں امریکا، پاکستان، ازبکستان اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی ایک نیا سفارتی اتحاد تشکیل دے دیا گیا ہے۔گزشتہ دنوں تاشقند میں وسطی اورجنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں وزیراعظم عمران خان، ازبک صدر شوکت، افغان صدر اشرف غنی سمیت خطے کے ممالک کے اہم عہدیداران اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے الزام عائد کیا کہ پاکستان سے 10 ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔ اشرف غنی کی اب کٹھ پتلی حیثیت بھی ختم ہوتی جارہی ہے اور وہ مستقبل کے افغانستان میں کہیں نظر نہیں آتے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ افغان عوام کے نمائندہ سربراہ نہیں ہیں، وہ جس افغان صدارتی انتخاب کے ذریعے مسلط کیے گئے تھے اُس میںصرف 20 فیصد افغانوں نے حصہ لیا تھا، جب کہ صرف 10 فیصد ووٹ اشرف غنی کے حق میں آئے تھے، اور اب دوسری طرف طالبان پورے افغانستان کو آہستہ آہستہ اپنے قبضے میں لے رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہیںکوئی جلدی نہیں ہے، اور وہ اپنی حکمت ِعملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے قدم، اور اس کے مقابلے میں صدر اشرف غنی کا خود کو ہر حال میں ایک جائز حکومت کے طور پر منوانا زمینی حقائق کے برخلاف ہے، اور ایسے میںیہ کہنا کہ ’’طالبان سے اگر بات چیت نہ ہوئی تو ہم طالبان کا مقابلہ کریں گے‘‘ اس کی اُس وقت بھی اہمیت نہیں تھی جب امریکا اشرف غنی کی پشت پر موجود تھا، تو اب کیسے ہوسکتی ہے جب طالبان نے ایک معجزہ کردکھایا ہے اور امریکا افغانستان سے شکست کھاکر جاچکا ہے ؟ وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے، پاکستان نے گزشتہ 15 برسوں میں 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا ہے، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے‘‘۔اس بات کو تسلیم کرتے ہوے کہ طالبان افغانستان میں اب ایک روشن حقیقت ہیں، اور وہی افغانستان کا اصل مستقبل ہیں وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ۔’’ جب افغانستان میں ہزاروں نیٹو فوجی اور بہترین فوجی مشنز تھے اُس وقت طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کو کہا جاتا، طالبان اب کیوں سمجھوتا کریں گے جب افواج کے انخلا کی حتمی تاریخ دی جاچکی ہے اور صرف چند ہزار امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں!‘‘ انہوں نے کہا کہ جب طالبان کو فتح کا یقین ہے تو وہ ہماری بات کیوں سنیں گے؟ــ
موجودہحکومت کی سب سے اہم ترجیح اِس وقت طالبان کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ افغان عوام سے اچھے تعلقات ہونے کے باوجود ہم نے طالبان سے بحیثیت ریاست کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ ہم نے ابتدا میں طالبان کی حمایت کی، اور اس کے بعد اکتوبر2001ء میں افغانستان پر حملے کے لیے امریکا کو اپنی سرزمین دے دی، امریکی دبائو پر طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا، یہاں تک کہ اسلام آباد میں مقیم افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی سفارتی روایات توڑ کر امریکا کے حوالے کردیا۔ یہی نہیں، اس سے قبل 14 اپریل1988ء کو ہونے والے جنیوا معاہدے کے ذریعے بھی ہم نے دھوکا دیا، جس میں افغان جہادی تنظیموں اور ماسکو کے درمیان سمجھوتا ہوتا، مگر ہماری حکومت نے فریب کاری کرکے ڈاکٹر نجیب کے ساتھ معاہدے پر دستخط کردیئے تھے۔ اس خطے میں ہونے والی اہم تبدیلی کے موقع پر ایک بار پھر ہم دوراہے پر کھڑے ہیں۔ جو نیا سفارتی اتحاد قائم ہوا ہے اُس میں امریکا موجود ہے، جس سے کسی خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں طالبان اور افغان ہمیں عزت و احترام دیں، تو کسی امریکی کھیل سے دور، اور ہوشیار رہنا ہوگا، کیونکہ کچھ طاقتیں ہیں جو افغانستان میں برپا قیامت اور ہمسایوں پر اس کے منفی اثرات میں اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی تاریخ، کلچر، زبان اور تہذیب ایک ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر آمدو رفت، تجارت اور عوامی روابط ہیں۔ اس لیے امن کی اگر سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کو ہے۔ پاکستان نے بھی اس امریکی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے، اور چار عشروں سے یکے بعد دیگرے دو سپر طاقتوں کی مسلح مداخلت، تسلط، اور خانہ جنگی کی شکل میں تباہ کاری سے دوچار ہونے والے افغان بھی اپنے ملک میں امن اور سکون سے زندگی گزارنے کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف طالبان ماضی کے مقابلے میں بالکل مختلف رویہ رکھتے ہیں، وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کابل پر طاقت کے ذریعے قبضے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ کہہ رہے ہیںکہ کسی کو تشویش میں مبتلا ہونے کی ضروت نہیں، کیونکہ ہمارا ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے کہ ہم اپنے انقلاب کو دوسرے ممالک برآمد کریں، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہوں اور افغانستان کی تعمیر نو پر توجہ مرکوز رکھیں۔ اور اس سلسلے میں طالبان کئی متعلقہ ممالک سے رابطے میں ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ڈان نیوز کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آئندہ جو بھی اسلامی حکومت بنے گی اس کے لیے مسلح افواج اور پولیس کی ضرورت ہے، اور اس کو ہم برقرار رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم میں استطاعت ہے کہ دوسرے ملکوں میں جائیں اور ان کے خلاف حملے کریں، مگر یہ ہماری پالیسی نہیں تھی اس لیے ایسا نہیں کیا، لیکن اپنے ملک میں مزاحمت کی اور لڑائی کی، اور قابض قوتوں کے خلاف جہاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب قبضہ نہ ہو تو دوسرے ممالک اور خصوصاً اسلامی ممالک کے ساتھ خوامخواہ کیوں لڑائی کریں؟ ہمارے خلاف جو بھی قیاس آرائیاں اور منفی باتیں کی جاتی ہیں وہ دشمنی پر مبنی ہیں۔
طالبان نے اپنا پورا پروگرام سامنے رکھ دیا ہے، اور وہ اُس کے مطابق جدوجہد کررہے ہیں۔ مستقبل کے افغانستان کے تناظر میں اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس فی الحال ملتوی کردی گئی ہے، یہ کانفرنس افغانستان کی درخواست پر بلائی گئی تھی اور اسی کی درخواست پر ملتوی کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے مختلف افغان رہنمائوں کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی، لیکن اصل فریق طالبان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان نے ابھی ہمیں امن کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان سے متعلق کوئی کانفرنس ہو، اور اُس میں طالبان ہی موجود نہ ہوں تو اُس کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی؟ اس حوالے سے بھی پاکستان کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا طالبان کی حقیقت کو تسلیم کرے، اور ان کے خلاف امریکی ایجنڈے کا حصہ نہ بنے۔ تاشقند میں بننے والا نیا سفارتی اتحاد مسئلے کا حل نہیںہے۔ اب حالات 1980ء اور 1990ء کی دہائی والے ہرگز نہیں ہیں، اور کوئی نئی لڑائی شروع ہوگی تو اس کے اثرات پوری دنیا پر تو پڑیں گے لیکن ر وس، چین، ایران اور پاکستان کو زیادہ محتاط اور امریکا اور بھارت سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔