طالبان کو فتح نظر آرہی ہے،ہماری بات کیوں سنیں گے،عمران خان

415
تاشقند: وزیراعظم عمران خان وسطی و جنوبی ایشیائی رابطہ ممالک کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں

تاشقند/واشنگٹن/ریاض(صباح نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کو افغانستان میں اپنی فتح نظر آرہی ہے تو اب وہ ہماری بات کیوں سنیں گے۔ان کے بقول جب لاکھوں امریکی و نیٹو فوجی افغانستان میں تھے تب انہیں طالبان سے مذاکرات کرنے چاہیے تھے۔ تاشقند میں وسطی اور جنوبی ایشیا رابطہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے تو عمران خان نے انہیں فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بدامنی کے لیے پاکستان پر الزامات لگانا غیر منصفانہ ہے، گزشتہ 15 سال میں پاکستان نے70 ہزارافراد کی قربانی دی، افغانستان میں امن سب ہمسایہ ممالک کے مفاد میں ہے، افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان پل ہے، افغانستان میں امن خطے میں امن کے لیے ضروری ہے، خدشہ ہے افغانستان میں بدامنی سے مہاجرین کی ایک نئی لہر آئے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، افغان امن عمل میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر پاکستان ہی لے کر آیا، امریکا افغانستان میں فوجی حل کی کوشش کرتا رہا جو ممکن نہیں تھا، پاکستان نے روز اول سے کہا افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں مذاکرات ہے۔انہوںنے کہا کہ اب ازبکستان، تاجکستان اور پاکستان کے لیے مل کر بیٹھنے اور افغانستان کے پرامن حل اور سیاسی تصفیے میں مدد کا وقت ہے، یہ ہمارے مفاد میں ہے۔عمران خان کا یہ بھی کہنا تھاکہ مسئلہ کشمیر پاکستان اوربھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے، مسئلہ کشمیر کے حل سے پورے خطے میں رابطے کھل جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوادر پورٹ پر معاشی سرگرمیاں مارچ 2019ء سے شروع ہوئیں، یہ منصوبہ بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، اور پورا خطہ اس سے مستفید ہوگا، جس کے لیے خطے میں امن و سلامتی سب سے اہم ہے۔ علاوہ ازیں تاشقند میں موجود روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ امریکا اور نیٹو نے عجلت میں افغانستان سے فوجی انخلا کیا جس سے افغانستان کی سیاسی اور فوجی مستقبل سے متعلق بڑی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے، اس صورتحال میں پڑوسی ممالک میں عدم استحکام پھیل جانے کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حالیہ دنوں میں افغانستان کی صورتحال میں تیزی سے بگاڑ دیکھا ہے۔مزیدبرآں افغانستان میں قیام امن،علاقائی تعاون اور خطے میں تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے پاکستان، امریکا، افغانستان اور ازبکستان پر مشتمل سفارتی پلیٹ فارم قائم کردیا گیا۔امریکی دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سفارتی پلیٹ فارم کا قیام تاشقند میں جاری سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا کانفرنس کے موقع پر عمل میں آیا۔اس موقع پر افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ موجود تھے۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق نیا سفارتی پلیٹ فارم افغان امن عمل اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا اور رکن ممالک کامشترکہ اجلاس جلد ہو گا۔دوسری جانب طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے ملک چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عرب نیوز کو انٹرویو میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ ہم نے طویل عرصے حکومت کی ہے اور اب بھی ہمارے پاس حکومت چلانے والے اہل اور تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔جنگ بندی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی روڈ میپ آنے تک جنگ بندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پہلے سب سیاسی روڈ میپ پر اتفاق کریں اس کے بعد ہی سیز فائر پر غور کیا جا سکتا ہے۔ طالبان ترجمان نے کہا کہ جن علاقوں اور سرحدوں پر اسلامی امارات کی حکومت قائم ہوچکی ہیں وہاں لوگوں اور اشیا کی آمد و رفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اب بغیر کرپشن اور آسانی سے تجارتی سامان کی ترسیل جاری رکھ سکیں گے۔سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان کے زیر اثر علاقوں میں لوگ بہت خوش ہیں اور کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔ ترجمان طالبان نے اقوام متحدہ، دیگر عالمی اداروں اور ممالک سے مالی مدد کی اپیل کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا سے امن معاہدے میں ہم نے افغانستان کی سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے کا عہد کیا تھا اور اس حوالے سے القاعدہ کو بھی پیغام بھیج دیا ہے۔