مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں

280

بھارت میں مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تشدد اور اس کے نتیجے میں ہلاکت سب سے سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ آزادی سے لے کر آج تک مسلسل ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جس سے سماج میں نفرت و عداوت خوف وہراس اور شدت پسندی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ 2014ء میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہجوم کے ہاتھوں جان لیوا تشدد کے واقعات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ۔23 جولائی 2019ء کو ملک کی 49 اہم شخصیات نے وزیر اعظم کو خط لکھا،جس میں انہوں نے مسلمانوں،دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے ہجوم کے ہاتھوں زخمی یا ہلاک ہونے کے واقعات سے انہیں آگاہ کیا تھا، لیکن راجیہ سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت جھاڑکھنڈمیں ہونے والے واقعے کے شکار مسلمان تبریز انصاری کے موت پرصرف جھوٹی ہمدردی کا اظہار کیا تھا اوران کے اہل خانہ سے صرف تعزیت ہی کی تھی۔ در اصل اس پورے معاملے میں خود وزیر اعظم مودی ہی کا ہاتھ مسلمانوں کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں اور گجرات فسادات سے رنگا ہوا ہے۔ اسلاموفوبیا ان کی رگ رگ میں بسا ہوا ہے۔ وہ آر ایس ایس جیسی دہشت گرد ہندوتوا تنظیموں کی کٹھ پتلی ہیں اور یہی وجہ ہے وہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد پر بات بھی نہیں کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کینیڈا میں ٹرک ڈرائیور نے ایک مسلم خاندان کے 4 افراد پر ٹرک چلادیا تھا، اس واقعے کے بعد وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمان میں کہا تھا کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ کینیڈا میں اسلاموفوبیا نہیں ہے تو وہ غلط ہے۔ اسلاموفوبیا موجود ہے، مسلمانوں سے نفرت موجود ہے، آپ اگر اس مقتول خاندان کے افراد سے پوچھیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہاں اسلاموفوبیا ہے۔ اس واقعے کے بعد اونٹاریو کے شہری اس مظلوم خاندان کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں نہ ایسا وزیر اعظم ہے، جو مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو کر اسلاموفوبیا کے خلاف آواز بلند کرسکے اور نہ ہی وہ شہری ہیں جو مثالی ہوں۔ جو نفرت آمیز اور قتل و غارت گری کے خلاف مظاہرے کریں۔ سڑکوں پر نکلیں اور ایسے گھناؤنے جرم کے خلاف سخت سزا کا مطالبہ کریں۔ اس کے برعکس عدالت ملزمان کو با عزت بری کردیتی ہیں اور لوگ ہندو دہشت گردوں کو جیل سے رہائی کے بعد مالا پہنا کر استقبال کرتے ہیں۔ مشہور سماجی کارکن تیستا تیلواڈ نے انڈین امریکن مسلم کونسل کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ بھارتی مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔
گزشتہ دنوں بہار کے ضلع ارریہ کے چکئ گاؤں میں چوری کے الزام میں 27 سالہ نوجوان اسماعیل کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر قتل کردیاگیا۔ یہ صرف اسماعیل کی ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے ہلاکت نہیں  ہے، بلکہ یہ درحقیقت اس کے خاندان کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ان کے معصوم بچوں کا مستقبل تباہ کرنے کا اقدام ہے، جو آئندہ پوری زندگی یتیم کی حیثیت سے گزاریں گے۔ یہ ان کے بوڑھے باپ کو بے آسرا کرنے کا اقدام ہے، جو اب بڑھاپے میں بے سہارا ہوگیا ہے۔ یقین کیجیے کہ تشدد سے ہلاکت کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ پورے خاندان کی ہوتی ہے، جس کے گہرے اثرات آئندہ نسلوں پر بھی پڑتے ہیں۔ پروفیسر گریگوری اسٹانٹون کے مطابق بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کے ساتھ ان کی معاشی صورت حال کو بھی بدتر کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ عدلیہ کا سخت نہ ہونا اور انصاف میں تاخیر کا ہونا ہے۔ محکمہ پولیس کی جانچ میں لاپروائی کرنا بھی اہم ہے۔ بعض دفعہ تو پولیس والے الٹا مظلوم خاندان کے افراد کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں عوام کو ایسے گھناؤنے جرائم کے خلاف حکومت کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا۔