خلیج امریکا تعلقات نئے دوراہے پر!

220

دنیا بھر کی قیادت اس وقت چین اور امریکا کے درمیان ہونے والی ممکنہ سرد جنگ کے حوالے سے اپنی اپنی اسٹریٹجی ترتیب دے رہی ہے۔ اس صورتحال میں خلیجی ممالک بھی ان دو عالمی طاقتوں کے حوالے سے خطے میں اپنے مختلف مقاصد اور ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کر رہے ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ اس صورتحال میں ذرا سی غلطی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ میں خلیجی تعاون کونسل کا کردار دیگر ممالک سے زیادہ اہم ہے۔ امریکا 1990-91ء کی خلیج جنگ سے ان ممالک کی سیکورٹی کے معاملات میں براہ راست شامل ہے۔ ان ممالک کو امریکی افواج کی موجودگی کے لیے کثیر سرمایہ صَرف کرنا پڑتا ہے۔ قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، کویت، عراق، سعودی عرب میں امریکا نے اپنے مضبوط پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح ان ممالک میں امریکا اپنا گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
امریکی پالیسی کی ناکامی کی بازگشت کے باوجود بائیڈن انتظامیہ، اسرائیل، متحدہ عرب امارت اور بحرین کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی۔ امریکی کوششوں سے سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ امریکا نے اپنی تزویراتی حکمت عملی سے قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کے مابین جاری سرد جنگ کو امن اور اعتماد کی فضا میں کامیابی سے تبدیل کر لیا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکا اور چین دونوں، تیل کی ضروریات کے لیے خلیجی ممالک کے وسائل پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ وبا کی صورتحال سے پہلے چین نے اپنی ضرورت کا 28 فیصد تیل خلیجی ممالک سے حاصل کیا۔ مئی 2020ء میں سعودی عرب نے اپنے تیل کا تین تہائی حصہ صرف چین کو درآمد کیا۔ اسی طرح عراق نے بھی تیل کا ایک بڑا حصہ چین کو درآمد کیا تھا۔ اپنی معاشی ضرورت کے تناظر میں خلیجی ممالک کے لیے چین کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں۔ خاص طور پر موجودہ معاشی صورتحال اور عدم استحکام میں ان تعلقات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
اس وقت امریکا اور چین کے درمیان تنازع کی ایک اہم وجہ فائیو جی نیٹ ورک ہے۔ ٹرمپ کی حکومت نے اپنے 53 اتحادی ممالک کے ساتھ Clean Network Initiative (سی این آئی) کا آغار کیا تھا، جس کا مقصد چین کو ٹیکنالوجی کے میدان میں تنہا کرنے اور اس کی بڑھتی ہوئی تکنیکی ترقی اور اثر ورسوخ کو روکنا تھا۔ اس حوالے سے امریکا نے اسرائیل پر بھی زور دیا تھا کہ وہ چین کے تکنیکی وسائل کے استعمال سے اجتناب کرے۔ امریکا اپنے اتحادیوں کو چین کے خلاف تکنیکی جنگ کے لیے تیار کرنے کے بعد اب خلیجی ممالک پر اس حوالے سے دباؤ بڑھانے کی تیاری کررہا ہے۔ کویت میں موجود چینی سفارت کار اور امریکی ہم منصب کے درمیان ٹوئٹر پیغام کے تبادلے کو امریکا اور چین کے درمیان جاری سرد جنگ کے وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
امریکا کو اب اپنی پالیسی چین کے تناظر میں ترتیب دینا ہوگی۔ جب کہ امریکا خلیجی ممالک میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔ بائیڈن کی قیادت میں امریکا دنیا بھر میں اپنی افواج کی موجودگی کے حوالے سے ازسرنو اپنی منصوبہ بندی کرے گا۔ اس کے ساتھ امریکا اپنی نئی تزویراتی منصوبہ بندی کے تحت انڈوپیسیفک خطے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھائے گا۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ بائیڈن کی قیادت میں چین کے حوالے سے امریکا کی سابقہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ امریکا دیگر ممالک کے ساتھ شراکت اور تعاون کو چین کے تناظر میں ترتیب دے گا اور خلیجی ممالک میں اپنی غیر معمولی توجہ اور موجودگی کو برقرار رکھے گا، تاہم امریکا دنیا بھر میں اپنی عسکری صف بندی کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کرسکتا ہے۔
بائیڈن اپنی انتخابی سرگرمیوں کے دوران بھی زور دیتے رہے ہیں کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ضروری ہے۔ خلیجی قیادت امریکا کے دیگر ممالک کے ساتھ ممکنہ اتحاد اور شراکت کے حوالے سے اضطراب کا شکار ہے۔ لگتا یہ ہے کہ خلیجی ممالک اپنے اقتصادی اور معاشی مفادات کے پیش نظر چین کے خلاف امریکا کی صف بندی میں شمولیت سے اجتناب کریں گے۔ خلیجی ممالک کو اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ انہیں اپنی دُوررَس تزویراتی منصوبہ بندی، خطے میں استحکام اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکا کے ساتھ دیگر ممالک فرانس، روس، بھارت، اسرائیل، یونان اور برطانیہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنا بھی ضروری ہے۔ (بشکریہ: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
OOO