فوجی انخلا مکمل ،بگرام ایئربیس خالی کردیا گیا – مسعود ابدالی

232

امریکی فوج نے بگرام کا فوجی اڈہ خالی کردیا، یا یوں کہیے کہ واشنگٹن نے آشیانہ چمنِ افغاں سے اٹھا لیا۔ ہم نے جان کر بلبل کے بجائے واشنگٹن لکھا ہے کہ بلبل محبت و الفت کا استعارہ ہے، اس کے پیار بھرے نغمے باغ و چمن کی رونق کو لازوال بنادیتے ہیں، جبکہ بگرام کا امریکی اڈہ اہلِ افغانستان کے لیے قبضے اور دہشت کی علامت تھا۔ اس کے احاطے میں قائم عقوبت گاہ سے مظلوموں کی جو چیخیں بلند ہوتی تھیں، انسانی ضمیر ان کی گونج آج بھی محسوس کررہا ہے۔

بگرام کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ تین سو سال قبلِ مسیح آباد ہونے والا یہ شہر گندھارا تہذیب کا مسکن تھا۔ دارالحکومت کابل سے 25 کلومیٹر شمال میں واقع بگرام اب صوبہ پروان کے دارالحکومت چاریکار کا مضافاتی علاقہ اور درئہ پنجشیر کا دہانہ ہے۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر طویل وادی پنجشیر جفاکش و دلاور افغان تاجکوں کا علاقہ ہے۔

پنج شیر 42 سال گزر جانے کے بعد بھی روسی افواج کے دل و دماغ پر ایک خوفناک خواب کی صورت سوار ہے، کہ 1979ء کے حملے کے بعد سوویت یونین نے ایٹم بم کے سوا اپنے ترکش کا ہر تیر اور تشدد کا ہر حربہ استعمال کرلیا لیکن روسی پنجشیر فتح کرکے کمک کا راستہ نہ ہموار کرسکے۔ اُس زمانے میں وسط ایشیا سوویت یونین کا حصہ تھا۔ ماسکو شمالی افغانستان پر قبضہ کرکے سوویت یونین سے زمینی رابطہ بحال کرنا چاہتا تھا۔ اسی بنا پر حملے کے بعد روس نے بگرام اڈے کو اپنا مرکز بنایا۔ سوویت یونین نے 1950ء میں بگرام کا ہوائی اڈہ تعمیر کیا تھا جسے 1980ء میں وسعت دی گئی۔

اکتوبر 2001ء میں حملے کے بعد نیٹو نے اس اڈے کو اپنے ہاتھ میں لیا، اور جلد ہی اس کا شمار دنیا کے چند بہت بڑے اڈوں میں ہونے لگا۔ یہاں تعمیر کی جانے والی بیرکوں میں 10 ہزار فوجیوں کے قیام کی گنجائش ہے۔ 9 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے خرچ سے 12ہزار فٹ طویل رن وے تعمیر کیا گیا جس پر دیوہیکل مال بردار جہاز اور B-52سمیت خوفناک بمبار اتر سکتے ہیں۔ اس اڈے پر 110 طیارے کھڑے کیے جاسکتے ہیں جن کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔

یہ محض فوجی اڈہ نہیں بلکہ صدیوں پرانے چاریکار شہر کے بطن میں 30 مربع میل رقبے پر محیط ایک جدید ترین شہر ہے، جہاں چند روز پہلے تک تیز رفتار انٹرنیٹ، سیٹلائٹ فون سمیت وہ سہولتیں موجود تھیں جو بہت سے متمول امریکیوں کو اپنے ملک میں حاصل نہیں۔ جدید ترین آپریشن تھیٹر سے آراستہ پچاس بستروں پرمشتمل اسپتال میں دانتوں کا شعبہ بھی تھا جہاں عام علاج کے علاوہ مصنوعی دانت لگانے کی سہولت موجود تھی۔ شطرنج اور دوسرے board gamesکے لیے خصوصی کمروں کے ساتھ باسکٹ بال کورٹ اور کسرت کدہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرائشِ گیسو، مساج کدے، میخانے، رقص گاہ اور سنیما گھر سمیت فوجی جوانوں کو عشرت کے تمام اسباب مہیا کیے گئے تھے۔ امریکہ کی مشہورِ زمانہ Starbucksکافی کے ساتھ پیزاہٹ، برگر کنگ اور لوزیانہ کی مشہور Popeyes Chickenنے بھی اپنی دکانیں سجائی ہوئی تھیں۔

اسی کے ساتھ بگرام کے ایک حصے میں وہ قید خانہ بھی ہے، جس کی سرگرمیوں کے بارے میں جب ایک رپورٹ امریکی سینیٹ میں پیش کی گئی تو کیلی فورنیا کی سینیٹر محترمہ ڈائن فینسٹائن اجلاس سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں کہ ان کے لیے اسے سننا ممکن نہیں۔ باہر آکر آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے حیرت سے پوچھا ”کیا یہ سب کچھ ہماری سی آئی اے کرتی تھی؟“ یہاں تشدد کے لیے مصری فوج کے جلاد بلائے گئے تھے۔

بگرام جیل افغان شہریوں کے لیے اب بھی خوف کی علامت ہے، ایک ضعیف افغان شہری نے امریکی صحافی کو بتایا کہ والدین اپنے روتے ہوئے بچوں کو اس جیل کا نام لے کر ڈراتے ہیں۔ امریکی حملے کے ابتدائی دس سالوں تک پاکستان اور افغانستان سے شہریوں کا لاپتا ہوجانا عام تھا، اور ان کا سراغ بگرام کی کسی کوٹھری ہی سے ملتا تھا۔ ایک سیاسی کارکن نے اس جیل میں 6 سال گزارے ہیں۔ اس نے(وائس آف امریکہ) VOA سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ بگرام کا نام سنتے ہی میرے کانوں میں درد بھری چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ امریکی سی آئی اے نے فلپائن، تھائی لینڈ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں کئی جگہ عقوبت کدے بنا رکھے ہیں جنھیں کوچہ سیاہ یا dark sitesکہا جاتا ہے، لیکن نائن الیون کے بعد طالبان اور القاعدہ کے افراد پر تشدد کے لیے کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے، عراق میں ابوغریب جیل اور بگرام میں خصوصی مرکز قائم کیے گئے۔ اِس وقت بھی کئی ہزار قیدی بگرام میں بند ہیں۔

گزشتہ ماہ جب نیٹو افواج نے انخلا شروع کیا تو افغانستان بھر میں پھیلے اڈوں کو تالا لگاکر تمام سپاہی بگرام منتقل کردیے گئے۔ ہلکے ہتھیار افغان فوج کو عطا ہوئے، اور بھاری سامان امریکہ و یورپ منتقلی کے لیے بگرام لایا گیا۔ امریکی فوج کی مرکزی کمان کے ایک ترجمان کے مطابق یہاں موجود اسلحہ C-17 المعروف گلوبل ماسٹر طیاروں کی 763 پروازوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ ان طیاروں کی باربرداری گنجائش 77500 کلوگرام ہے۔ عینی شاہدین نے اڈے سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں نے حساس نوعیت کا ناقابلِ استعمال اسلحہ تلف کردیا۔

امریکیوں کے سوا نیٹو کے باقی سپاہی جون کے وسط تک افغانستان چھوڑ چکے تھے، اور 2 جولائی کو امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونے پر بگرام کا اڈہ کابل سرکار کے حوالے کردیا گیا۔ بگرام میں نیٹو کے 650 سپاہی اب بھی موجود ہیں جو افغانستان میں امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں اور سفارتی تنصیبات کو تحفظ فراہم کریں گے۔ پیچھے رہ جانے والے دستے میں ترک فوجی بھی شامل ہیں جو کابل ایئرپورٹ کا حفاظتی انتظام سنبھالیں گے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے نیٹو سپاہیوں کی تعیناتی قطر امن معاہدے کے مطابق ہے۔ اب تک اس بندوبست پر طالبان کی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، بلکہ طالبان کے ترجمان نے بگرام اڈہ خالی کردینے کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ بتیس برس پہلے 1989ء میں اسی اڈے سے روس کی حملہ آور فوجیں واپس گئی تھیں، اور اب بگرام کی تنگ و تاریک گلیاں ایک اور عالمی طاقت کی پسپائی کا مشاہدہ کررہی ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی 4 جولائی کو افغانستان سے چلے گئے۔

اس موقع پر بوجھل دل کے ساتھ اس بیس سالہ بے مقصد خونریزی کے افسوس ناک اعداد و شمار پیش خدمت ہیں۔ امریکہ کے موقر تعلیمی ادارے جامعہ براون کے مطابق جنگ میں 47 ہزار افغان شہری، 70 ہزار افغان سپاہی، ڈھائی ہزار امریکی، اتحادی افواج کے ساڑھے گیارہ سو سپاہی اور چار ہزار کے قریب امریکی فوج سے وابستہ نجی ٹھیکیدار (Contractors) مارے گئے۔ افغان شہریوں کی ہلاکت کے جو اعدادو شمار دیے گئے ہیں وہ امریکی فوج کے جاری کردہ اور حقیقت سے کہیں کم ہیں۔ حکمرانوں کا یہ شیطانی شوقِ کشور کشائی امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو سوا دو ہزار ارب (20 کھرب 260 ارب) ڈالر کا پڑا۔

جمعہ 2 جولائی کو بگرام فوجی اڈہ خالی ہونے کے ساتھ ہی واشنگٹن میں یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ 4 جولائی کو امریکہ کے یوم آزادی پر فوجی انخلا مکمل ہونے کا سرکاری اعلان کردیا جائے گا، اور ایک صحافی نے صدر بائیڈن سے سوال بھی پوچھ لیا کہ ”کیا افغانستان سے انخلا کا عمل چند دن میں مکمل ہورہا ہے؟“ اس پر امریکی صدر نے سر کے اشارے سے نہیں کہا۔ نامہ نگار نے جب وضاحت کے لیے سوال دہرایا تو امریکی صدر کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے اور انھوں نے نسبتاً بلند آواز میں کہا ”یقین کریں، ہم اگلے دو دنوں میں انخلا مکمل کرنے والے نہیں، تاہم تمام سرگرمیاں منصوبے کے عین مطابق ہیں اور امریکہ (11) ستمبر تک انخلا مکمل کرلےگا۔“

صدر بائیڈن کی گفتگو سے لگتا ہے کہ سرکاری اعلان 11 ستمبر تک ہی ہوگا، لیکن افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا 2 جولائی کو مکمل ہوچکا، اور اب سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے امریکی و ترک سپاہیوں کے سوا مزید کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں۔ اسی کے ساتھ بھاری اسلحہ کی منتقلی بھی مکمل ہوگئی ہے۔ جمعہ کو امریکہ کے محکمہ دفاع کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ (VOA) کو بتایا کہ امریکی اور بین الاقوامی فورسز نے بگرام کا فوجی اڈہ خالی کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ کابل میں افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان فواد امان نے اپنے ٹویٹ میں کہا ”تمام اتحادی اور امریکی افواج بگرام ایئربیس سے گزشتہ رات یعنی 2 جولائی کو چلی گئی ہیں، اور یہ اڈہ افغان فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔“

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی فضائیہ کے کچھ بمبار اور ڈرون کا بیڑہ بگرام میں موجود ہے جس کے لیے ایک علاقہ مخصوص کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس اثاثے کی دیکھ بھال افغان فوج کررہی ہے یا اس کے لیے امریکی ماہرین اب بھی موجود ہیں۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ بگرام سے اڑنے والے ڈرون کو گوادر کے قریب بحر عرب میں تعینات امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز آئزن ہاور سے کنٹرول کیا جائے گا، یا اس مقصد کے لیے برطانوی بحریہ کا الدّقم (عُمان) اڈہ استعمال ہوگا۔ اس ضمن میں بحرین اور مشرقی ازبکستان کے قرشی خان آباد المعروف کے ٹو اڈے کا نام بھی لیا جارہا تھا۔ کے ٹو کے لیے گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ ٹونی بلینکن نے امریکہ کے دورے پر آئے اپنے ازبک ہم منصب سے بات بھی کی، لیکن کہا جارہا ہے کہ ازبکستان نے معذرت کرلی ہے۔

دوسری طرف افغانستان کے لیے روسی صدر کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف نے علاقے میں امریکی اڈوں کے قیام کی شدید مخالفت کی ہے۔ روسی خبررساں ایجنسی RIA سے باتیں کرتے ہوئے روسی سفارت کار نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کو امریکی اڈوں کی دوسرے ملکوں کو منتقلی میں تبدیل کردینا مناسب نہیں۔ انھوں نے افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں روس علاقے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ بیرونی مداخلت اور طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل نہیں، اور ساری دنیا کو افغانوں کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔

بگرام کا انتظام اب کابل سرکار کے پاس ہے۔ طالبان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکیوں کا چھوڑا ہوا اسلحہ طالبان کے خلاف استعمال ہوگا، چنانچہ یہ اڈہ اب طالبان کا ترجیحی ہدف ہے۔ بگرام کے شمال مشرق میں کپیسا کے دارالحکومت محمود راقی سمیت صوبے کے کئی علاقے طالبان کے دبائو میں ہیں۔ محمود راقی بگرام سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اڈے کے جنوب مشرق میں کوہ صافی کے بڑے علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے، تو جنوب مغرب میں کابل سے بھی شدید لڑائی کی خبریں آرہی ہیں۔ طالبان نے سارے افغانستان میں سرکاری فوج کو الجھایا ہوا ہے، اس لیے کابل کے لیے بگرام کی جانب کمک بھیجنا بہت مشکل ہے۔

دوسری طرف ڈاکٹر اشرف غنی کے لیے سقوطِ بگرام کسی طور قابلِ قبول نہیں کہ اس کے بعد کابل کا دفاع ناممکن ہوجائے گا۔ امریکہ بھی بگرام کو طالبان کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دے گا۔ سرکاری فوج اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد تو شاید واشنگٹن کو بگرام پر طالبان کے قبضے پر اعتراض نہ ہو، لیکن انخلا کے ساتھ ہی اس اہم عصبی مرکز پر طالبان کا قبضہ کابل سرکار تو ایک طرف، امریکہ اور نیٹو کو بھی بے دست و پا کردے گا۔

واشنگٹن کو حالات کی نزاکت کا پورا احساس ہے۔ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے چچا سام کیا کرسکتے ہیں؟ اسرائیل اور امریکہ، عسکری ہدف کے حصول کے لیے فضائی قوت کے وحشیانہ و بے رحم استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکی صدر کا کلیدی ہتھیار ڈرون ہے، اور ڈر ہے کہ جوبائیڈن طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے اوباما دور کی یاد تازہ کردیں گے۔

ڈرون کے آسرے پر جہاں کابل انتظامیہ کے باز صفت اہلکار شعلے اگل رہے ہیں، وہیں افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امن کے بارے میں اب بھی پُرامید ہیں۔ بگرام سے نیٹو کے انخلا پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نےکہا ”یہ درست ہے کہ لڑائی کابل شہر کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے، لیکن دوحہ (قطر) میں اس وقت بھی کابل حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔“

(This article was first published in Friday Special)