افغانستان کی بدلتی صورتحال

370

دوحا معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی فورسز کا انخلا ۱۱ستمبر تک ہونا ہے لیکن موجودہ صورتحال سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ انخلا جولائی کے مہینے میں ہی مکمل ہوجائے گا۔ امریکی فوجیوں کے انخلا سے افغان فوجیوں کے قدم اکھڑ چکے ہیں اور وہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی بڑھتی ہوئی بدخشاںاور ہلمند تک پہنچ چکی ہے اوراب تک افغانستان کے تقریباً 200اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہوچکا ہے۔ خانہ جنگی کے خوف سے آسٹریلیا کے سفارت خانے کی بندش کے بعد روس نے بھی مزار شریف میں اپنا قونصل خانہ بند کردیا ہے اور ادھربگرام ائربیس بھی امریکا نے رات کی تاریکی میں خالی کر دیا ہے۔ امریکی اور بھارتی حکومتوں نے بھی اپنے سفارت خانے کی حفاظت کے لیے مختلف آپشنز پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مضبوط پوزیشن کے باوجود ہم مذاکرات اور بات چیت کے لیے انتہائی سنجیدہ ہیں۔ اکثر سرداروں اور قبائل کا کہنا ہے کہ اب وہ اس خانہ جنگی سے تھک چکے ہیں۔ افغانستان پر کسی ایک قوت کو اختیار ہونا چاہیے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے۔
اس وقت زیادہ تر افغان فورسز اور طالبان مخالف قوتیں تاجکستان میں داخل ہورہی ہیں اور اب تک تقریباً پندرہ سو کے قریب افغان فوجی ودیگر افراد تاجکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی سے محسوس ہورہا ہے کہ جلد پورے افغانستان پر ان کا مکمل کنٹرول ہوجائے گا۔ افغانستان پر دیگر ممالک اوران کی ایجنسیوں کے بھی بڑے مفادات ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر یہاں امن نہیں چاہتے۔ سب سے زیادہ نقصان اور ذلت اور رسوائی بھارت کو اٹھانا پڑ رہی ہے۔ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان اور چین کے خلاف تخریبی کاروائیاں کرواتا تھا اور طالبان کے افغانستان میں ہونے والے کنٹرول سے تو اس کا بوریا بستر ہی گول ہوگیا ہے۔ تاجک جنگجو رہنما احمد شاہ مسعود کے حمایتی مزاحمت کر رہے تھے اب انہوں نے بھی حالات کو محسوس کر لیا ہے اور وہ پیچھے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔ طالبان کی سب سے بڑی آزمائش تو اس وقت شروع ہوگی جب امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہوجائے گا اور پھر وہاں طالبان کی حکومت قائم ہوگی۔ امکان یہ ہے کہ افغانوں کے درمیان کسی فارمولے پر آئندہ کے انتخابات اور نگراں حکومت پر معاملات طے ہوجائیں گے اور اگر خدانخواستہ طالبان کا افغانستان میں موجود تمام مجاہد گروہوں کے ساتھ کوئی فارمولہ طے نہ ہوسکا تو پھر حالات ایک بار پھر افغانستان کو خانہ جنگی کی جانب لے جا سکتے ہیں اور اس کے نتائج افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بے حد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں افغان قوم کی آرزوں کے مطابق اسلامی نظریاتی حکومت قائم کی جائے تاکہ تباہ حال افغانستان بھی ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے اوراس کی تعمیر نو کا آغاز کیا جاسکے۔
افغانوں کی یہ چوتھی نسل جنگ وجدل میں پل کر پروان چڑھی ہے ان مظلوموں کو بھی جینے کا حق ہونا چاہیے۔ افغانستان میں موجود بین الاقوامی قوتوں کی ایجنسیاں بھی اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور وہ نہیں چاہتی کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور یہ ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے۔ ان تمام سازشوں اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا۔ طالبان نے اپنے تدبر، عقل اور دانشمندی سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ذلت آمیز شکست کے بعد نکالا ہے۔ امریکا جو خود کو دنیا کا سب سے بڑا ٹھیکیدار اور شیر سمجھتا ہے۔ آج یہ زخمی شیر اپنے زخم چاٹتا ہوا جان بچاتے ہوئے افغانستان کی دلدل سے بڑی منت سماجت کے بعد نکل تو گیا ہے لیکن یہ زخمی شیر اب اور زیادہ خطرناک اور پاگل ہوگیا ہے۔ لہٰذا طالبان کو ایک ایسی نگران حکومت تشکیل دینی چاہیے جو افغانستان میں موجود تمام قوتوں کے لیے قابل قبول ہو اور افغانستان کی آزادی خود مختاری سلامتی کے ساتھ ساتھ اپنے اسلامی نظریات کی بھی حفاظت کرسکے۔ ایک مضبوط آزاد اور خود مختار افغانستان پاکستان کے لیے بھی انتہائی ناگریز ہے۔ افغان جنگ میں پاکستان نے ہمیشہ اپنے افغانی بھائیوں کے ساتھ بڑی فراغ دلی کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ روس کے حملے کے بعد پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں اور آج بھی 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ افغانستان میں جب امن قائم ہوگا اور افغان قوم کی آرزو کے مطابق ایک اسلامی جمہوری حکومت قائم ہوگی تو پھر ان شاء اللہ یہ مہاجرین بھی پاکستان سے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوں گے۔
18سال کی اس جنگ میں جہاں افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے وہاں اس جنگ کے اثرات پاکستان میں بھی رونما ہوئے ہیں۔ خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے سیکڑوں واقعات میں جہاں پاکستان کے ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے وہاں تقریباً دوسو ارب ڈالر کا بھی معاشی نقصان بھی ہوا۔ پاکستان قوم کی خون پسینے کی کمائی کو امریکا کی اس جنگ کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ 18سال کی طویل جنگ کے بعد امریکا کو بھی اب سمجھ میں اچھی طرح آگیا ہے کہ افغان جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور مذاکرات، بات چیت کے ذریعے ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں میں ابھی اور دم خم باقی ہے تو وہ آئندہ سو سال بھی لڑ لیں وہ افغانوں کو شکست نہیں دے سکتے نہ ہی افغانوں کے ایمان، جرأت، بہادری، شوق شہادت اور جزبہ جہاد کو ختم نہیں کرسکتے۔ افغانوں نے اپنے ایمان اور بہادری سے دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔