طلاق کے خواہشمند جوڑوں کیلئے چینی عدالت کا انوکھا فیصلہ

278

چین میں شادی کے بعد طلاق لینا اتنا آسان نہیں اور اب چینی صوبے سچوان میں اسے مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔

سچوان میں یائبن پیپلز کورٹ کے مجسٹریٹ نے حال ہی میں طلاق لینے والے جوڑوں کےلیے ایک امتحان وضع کیا ہے جس کا پرچہ بیوی اور شوہر دونوں کو حل کرنا ہوتا ہے۔ طلاق کےلیے اس امتحان میں فیل ہونا لازمی ہے جس کے بعد عدالت کی جانب سے طلاق کی درخواست منظور ہوجاتی ہے۔

یائبن کورٹ میں طلاق کی درخواستوں کا ڈھیر لگ گیا ہے۔ اس سے قبل بھی عدالت کے مجسٹریٹ جوڑوں کو علیحدگی سے قبل بہت مرتبہ سمجھاچکے ہیں لیکن اب انہوں نے ایک امتحانی سوالنامہ مرتب کیا ہے جسے میاں بیوی الگ الگ پرکرتےہیں۔ اگر امتحان میں 60 سے کم نمبر آتے ہیں تو عدالت ان کی طلاق کی کارروائی آگے بڑھاتی ہے بصورتِ دیگر عدالت انہیں چار و ناچار ساتھ رہنے کا حکم سناتی ہے۔

جج وینگ نے کہا، ’ہم طلاق سے قبل شادی کے بعد کا اصل معاملہ جاننا چاہتے ہیں۔ پھر سوالنامے سے موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں ساتھ گزاری گئی اچھی باتوں کو یاد کریں اور اپنا ارادہ ترک کردیں۔ اس طرح شوہر اور بیوی کو الگ الگ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ مکمل عقلی طور پر سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کریں۔‘

اس علاقے کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ہرسال یہاں کی عدالت کو نجی معاملات پر طلاق کی سیکڑوں درخواستیں وصول ہوتی ہیں جن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ لیکن مجسٹریٹ کی خواہش ہے کہ لوگ طلاق میں جلد بازی نہ کریں اور اگر اولاد ہے تو اس کا ہی خیال کرلیں۔

طلاق امتحان کے تین حصے ہیں۔ ایک میں خالی جگہیں بھرنی ہوتی ہیں اور ان کی وجہیں بیان کرنا پڑتی ہیں۔ دوم کچھ بنیادی سوالات ہیں جن میں سالگرہ، شادی کی تاریخ، پسندیدہ کھانوں کا پوچھا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں خاندان میں انفرادی ذمے داریوں، اچھی اور بری باتوں اور خود ان کی نظر میں شادی، گھرانے اور خاندان سے متعلق گہرے سوالات کئے جاتے ہیں۔

اس کے بعد جج امتحانی پرچے کو بغور دیکھتا ہے اور انہیں نمبر دیتا جاتا ہے جس کا پیمانہ کسی کو نہیں بتایا جاتا۔

ستمبر14 کو ایک جوڑے نے یہ امتحان دیا جس میں شوہر نے 80 اور بیوی نے 86 نمبر حاصل کیے جس کے بعد جج نے ان کی طلاق کی درخواست مسترد کردی۔ بیوی نے شوہر کے جوا کھیلنے اور بدتمیزی کا شکوہ کیا لیکن لاکھ کوشش کے باوجود جج نے انہیں گھر بھیج دیا۔