کراچی پیکج کا اعلان ایم کیوایم کو چپ کرانے اور پیپلزپارٹی کو دبائو میں لانے کیلئے گیا گیا تھا

192

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) وزیراعظم کا کراچی کے لیے11سو ارب روپے کا پیکج صرف اعلان تک محدودہے ‘عملی طورپر کچھ نظر نہیںآرہا ہے‘ پیکج کے اعلان کو 9 ماہ گزر گئے ہیں اور پھر سے بارش کا موسم بھی آرہا ہے لیکن اس حوالے سے گرائونڈ پر کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے‘اس تناظر میں شہر کے پھر سے ڈوبنے کا خدشہ ہے‘ پیکج کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں بزنس کمیونٹی سے کوئی نمائندگی نہیں ہے‘ پیکج پر اگر عملدرآمد ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکاہوتا۔ان خیالات کا اظہار وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان(ایف پی سی سی آئی) کے صدر میاں ناصر حیات مگوں، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے چیئرمین فیاض الیاس، ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) کے صدر اور سالٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایس ایم اے پی) کے چیئرمین، حب سالٹ کے چیف ایگزیکٹیو افسر اور لسبیلہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اسماعیل ستار، چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) اور سابق صدرکراچی چیمبر آف کامرس زبیر موتی والا، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر اور معروف ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کراچی کے لیے وزیر اعظم کے11 سو ارب روپے کے پیکج پر عمل درآمد کب ہوگا؟ میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے کراچی کے لیے11سو ارب روپے کا پیکج صرف اعلان تک محدود ہے ‘ عملی طور پر کچھ نظر نہیںآرہا ہے‘ اگر آپ کو اس پیکج کے تحت کوئی ترقیاتی کا م ہوتا ہوا نظر آیا ہے تو مجھے بھی بتا دیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے اعلان سے شہریوں کے علاوہ کراچی کے صنعت کاروں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی مگر اب ان کی یہ خوشی مایوسی میں بدل رہی ہے‘ وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی پیکج اور اس کے تحت بنائے گئے منصوبوں پرعمل درآمد کو یقینی بنائے۔ فیاض الیاس نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے11سو ارب روپے کے پیکج کوکراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا نام دیا ہے یہ خوش آئند ہے ‘ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں‘لیکن اس طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے جس طرح ہونا چاہیے تھا‘ پیکج میں کراچی سرکلر ریلوے، واٹر سپلائی منصوبوں، سیوریج ٹریٹمنٹ ، نالوں کی صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے منصوبوں، ماس ٹرانزٹ، ریل اینڈ روڈ ٹرانسپورٹ سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں‘ ماضی میں ہمیشہ کراچی کو نظر انداز کیا ہے‘ اس وقت عام شہریوں کو حد درجہ تکالیف کا سامنا ہے‘ جیسا کہ صاف اور محفوظ پانی کی کمی، رہائش کی کمی، کچرا اٹھانے کا ناقص ترین انتظام، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، صحت و تعلیم کی سہولیات کا ناپید ہونا، بجلی و گیس کی کمی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، شہری سیلاب کا مسئلہ اور نشیبی مقامات اور نکاسی آب سمیت دیگر مسائل نمایاں ہے‘ کراچی کا نقصان پورے ملک کا نقصان ہے۔ مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے کراچی کے لیے اعلان کردہ پیکج پر جلد عمل درآمد شروع ہوگا۔اسماعیل ستارنے کہا کہ کراچی پیکج کے اعلان کو 9 ماہ گزر گئے ہیں اور پھر سے برسات کا موسم بھی آرہا ہے لیکن گرائونڈ پر کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پیکج کے حوالے سے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سمیت تمام فریقین موجود ہیں جس کے نگران ایک بریگیڈئیر کو بنایا گیاہے میری ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے انہوں نے کہا ہے کہ وفاق کراچی پیکج کے لیے بہت سارے کام کر رہی ہے‘ آئندہ چند ماہ میں آپ کو کراچی میں آن گرائونڈ کام ہوتا ہوا نظر آئے گا مجھے بھی امید ہے کہ کراچی پیکج کے حوالے سے کراچی میں ترقیاتی کام ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی کراچی میں ہونے والی شدید بارشوں کے بعد ہمارے وزیراعظم کراچی تشریف لائے تھے اور انہوں نے کراچی کے لیے11 سو ارب روپے کا پیکج کا اعلان کیا تھا ‘ ایک مرتبہ پھر محکمہ موسمیات کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ کراچی میں شدید بارش کا امکان ہے کیا کراچی میںایک مرتبہ تباہی ہو گی یا پھر کوئی بہتری آئے گی ‘یہ آئندہ دنوں میں واضح ہو جائے گا۔زبیر موتی والا نے کہا کہ کراچی پیکج پر عملدرآمد کرنے کے لییہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کر کر کے تھک گئے ہیں لیکن اب تک صورت حال جوں کی توں ہے‘ جس طرح کراچی سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اسی طرح کراچی پر خرچ بھی کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کراچی پیکج کے حوالے سے جو کمیٹی بنائی گئی اس میں بزنس کمیونٹی سے کوئی نمائندگی نہیں ہے‘ اگر وزیراعظمکراچی کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں تو بزنس کمیونٹی کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں اور ان کے مسائل اور سفارشات کو سنیں‘ نہ سننا زیادتی ہے ۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ کراچی کے لیے وزیر اعظم نے جو 1100 ارب کا پیکج دیا ہے اس پر اگر عملدرآمد ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا‘ کم ازکم اگلے سال جولائی سے پہلے تو کام شروع ہوتا ہوا نظر نہیںآرہا ہے‘ پیکج کا اعلان ایم کیو ایم کو کچھ عرصے تک چپ کرانے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو انڈر پریشر لانے کے لیے تھا‘اگر یہ پیکج سچ ہوتا تو اس بجٹ میں بھی کنفرم منصوبوں کا اعلان کیا جاتا جو کہ نہیں ہوا ہے۔انہوںنے کہا کہ الیکشن سے پہلے جو بجٹ آئے گا اس میں کچھ منصوبوں پر کام شروع کریں گے تاکہ ووٹ حاصل کیے جاسکے‘ کراچی کے عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کراچی کے ساتھ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت مخلص نہیں‘ کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا ہے‘ کراچی پیکج کے نام پر جو اعلانات کیے گئے تھے‘ اُن پر عمل درآمد تو دور کی بات اب کراچی کے مسائل پر کوئی بات بھی نہیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شہر جو ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے اِس کی سڑ کیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘اب تک صنعتی علاقوں میں سڑکوں کی مرمت کا کام بھی شروع نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے تاجر برادری کو مسائل کا سامنا ہے، کراچی جو پورے پاکستان کو چلاتا ہے‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے صنعت کار پریشان ہیںاس شہر کی تباہی ملکی معیشت پر کاری ضرب ہے‘ وزیراعظم نے آج تک جو بھی اعلانات کیے ہیں‘ ان پر عملدرآمد نہیں ہوا‘ ضرورت اس امرکی ہے کہ کراچی کو مکمل تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈر سر جوڑ کر بیٹھیں اور شہرکو بچانے کی تدبیر کریں۔جب تک یہ شہر دوبار اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوتا‘ ہماری معاشی صورتحال بھی بہتر نہیں ہو گی‘ کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا۔