چینی نظام حکومت انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے،عمران خان

225
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان چینی صحافیوں کو انٹرویو دے رہے ہیں

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ چینی نظام حکومت کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر چینی میڈیا کے نمائندوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین کے نظام حکومت میں لچک ہے، وہ جب کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو نظام اس کی حمایت کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں کسی نظام میں تبدیلی آسان نہیں کیونکہ آپ بہت سی قانونی رکاوٹوں میں پھنس جاتے ہیں اور جمہوریت آپ کو جکڑ لیتی ہے، آپ ہمیشہ وہ نہیں کرسکتے جو معاشرے کے لیے بہتر ہو۔عمران خان نے کہا کہ ہمیں اب تک یہ بتایا گیا تھا کہ مغربی جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے لیکن چینی کمیونسٹ پارٹی ایک منفرد ماڈل ہے اوراس سے خطے کوفائدہ ہوگا، سی پی سی نے ایک ایسا متبادل نظام دیا جس نے تمام مغربی جمہوریتوں کومات دی، انہوں نے میرٹ کو فروغ دیا، کمیونسٹ پارٹی کی کامیابی طویل مدت منصوبہ بندی ہے، انتخابی جمہوریت میں صرف 5 سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ اب تک یہ خیال تھا کہ انتخابی جمہوریت میں میرٹ پر حکمران منتخب ہوتے ہیں اور ان کا احتساب بھی ہوسکتا ہے لیکن کمیونسٹ پارٹی نے انتخابی جمہوریت کے بغیر ہی اس کے تمام مقاصد زیادہ بہتر طور پر حاصل کیے۔انہوں نے کہا کہ چینی صدرکی انسداد بدعنوانی کے خلاف مہم انتہائی مؤثرہے، پاکستان بھی کرپشن کے خلاف اقدامات کے لیے پرعزم ہے، کرپشن سے ایلیٹ طبقہ فائدہ حاصل کرتاہے اور غریب متاثر ہوتاہے، چین نے غربت سے جس طرح اپنی عوام کو نکالا وہ حکمت عملی قابل تعریف ہے، جس معاشرے میں حکمران طبقے کا احتساب ہو وہ کامیاب ہوتا ہے۔وزیراعظم کے بقول خطے میں امریکا اور چین کے درمیان طاقت کا تنازع جاری ہے، دونوں ممالک کے اختلافات تشویشناک ہیں، امریکا پاکستان پر جتنا بھی دباؤ ڈال لے ہم چین کے ساتھ تعلقات کو کم یا تبدیل نہیں کریں گے۔عمران خان نے کہا کہ سنکیانگ کے حوالے سے مغربی میڈیا،حکومتوں اور چین کے موقف میں فرق ہے، ہم سنکیانگ سے متعلق چین کے موقف کو تسلیم کرتے ہیں ،ہمیں چینی قیادت پر اعتماد ہے، مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کیے جارہے ہیں لیکن اس پر مغربی میڈیا کی کم کوریج منافقانہ رویہ ہے، کشمیر سمیت دنیا میں ناانصافی کے متعدد واقعات ہوئے لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ آئندہ ہفتے گوادر کادورہ کررہاہوں وہاں سی پیک منصوبوں پرکام کی رفتار کا جائزہ لوں گا، ہم نے سی پیک منصوبوں کاجائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کی، سی پیک کا اگلہ مرحلہ پاکستان کیلیے بہت حوصلہ افزا ہے، ہمیں امید ہے کہ چینی صنعت ان خصوصی زونز کی طرف متوجہ ہوگی۔عمران خان نے مزید کہا کہ جیسے ہی امریکا نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا طالبان نے اسے اپنی فتح قرار دیا، لہٰذا جب وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ جنگ جیت چکے ہیں، ایسے میں انہیں کسی سیاسی حل پر راضی کرنا بہت مشکل ہے، افغانستان میں اب خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا، اس لیے ہم قیمت پر افغان مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں، ہم افغانستان میں کسی پارٹی کا انتخاب نہیں کرتے، نہ ہی ہمیں کسی سے شکوہ ہے، ہمیں وہی لوگ پسند ہوں گے جن پر افغانستان کی عوام کا اعتماد ہوگا،ہمیں صرف افغانستان کے امن سے غرض ہے۔علاوہ ازیں اسلام آباد میں منعقد ہ کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہے ، ملک میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں،قوم کے 15 یا 20 فیصد لوگ بھوکے رہ گئے تو وہی ہمیں پیچھے لے جانے کے لیے کافی ہوں گے ،آئندہ برسوں میں ہم اپنی آبادی کے لیے اناج پیدا کریں گے، سی پیک میں زراعت کو شامل کیا ہے، چین کی تکنیک لے کرآئیں گے ۔ان کایہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینیوں پر ظلم کی وجہ سے ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے لیکن انہوں نے ریگستان میں پانی پہنچا کر چیزیں اگائی ہیں۔عمران خان نے مزید کہا کہ منشیات کے عادی کی طرح ہمیں قرض لینے کی عادت ہوگئی، ہاتھ پھیلانے سے طاقتور نہیں بنا جاسکتا۔