بجٹ کی سیاست اور عوامی مفاد کی جنگ ـــ سلمان عابد

303

مرکز سمیت تمام صوبوں کے بجٹ آچکے ہیں۔ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی … وہ اپنے بجٹ کو عوامی بجٹ یا عوامی توقعات کے عین مطابق کہتی ہے، اور اس کے بقول عام آدمی کی معاشی مشکلات کو بنیاد بناکر ہی ہم نے حکومتی سطح پر اپنی معاشی ترجیحات کا تعین کیا ہے لیکن اس کے باوجود قومی سطح پر مرکز یا صوبائی حکومتوں کے بجٹ، یا ان سے جڑی معاشی پالیسیوں اور عوامی ریلیف کے تناظر میں لوگوں میں بداعتمادی پائی جاتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ بجٹ اور عوامی توقعات کے درمیان ہمیشہ سے ایک واضح خلیج رہی ہے۔

عمومی طور پر بجٹ کی بنیاد سالانہ معاشی پالیسیوں پر مبنی ہوتی ہے، لیکن یہاں منی بجٹوں نے قومی یا صوبائی بجٹ کی اہمیت کو مزید کم کردیا ہے۔  لوگوں کو لگتا ہے کہ بجٹ ایک طاقت ور طبقے کا کھیل ہے، اوراس میں عام آدمی کی حیثیت بہت کمزور ہے۔

بجٹ کی سب سے اہم خوبی معاشرے کے کمزور طبقات کی سیاست یا معیشت کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ یہی سیاست اور جمہوریت کی کامیابی کی کلید بھی ہے، اور ریاست و شہریوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ اس وقت عام آدمی کی سطح پر دیکھیں تو ہمیں چار بڑے مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں:

(1) معاشی بدحالی، بے روزگاری، یا روزگار کے خاتمے کا خوف،(2) بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آمدن میں کمی،(4) بنیادی معاشی وسائل تک عام لوگوںکی عدم رسائی،(4) حکومتی پالیسیوں، قانون اور عمل درآمد کے نظام میں عام آدمی کی ترجیحات کو نظراندازکرنا اور ایک مخصوص طاقت ور طبقے کے مفادات کو تحفظ دینا۔خاص طور پر نوجوان نسل میں معاشی ترقی کے تناظر میں خوف یا عدم تحفظ کا جو احساس ہے وہ سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔

یہ اچھی بات ہے کہ اِس بار بجٹ میں کچھ عوامی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں سات سے دس لاکھ تک کے صحت کارڈ کی فراہمی، جس سے ایک خاندان اپنا مفت علاج کروا سکے گا۔ اگر واقعی اس نظام پر شفافیت سے عمل درآمد ہوجائے تو یہ قومی سیاست اور عام آدمی کے تحفظ کے ضمن میں ایک بڑا گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی حکومت میں شروع ہونے والا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جسے اب ‘احساس پروگرام’  کا نام دیا گیا ہے، قومی سطح پر ایک اہم پیش رفت ہے، جس کے تحت13000روپے ایک خاندان تک شفافیت کے ساتھ جارہے ہیں۔ سندھ کے صوبائی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہ میں 20فیصد اضافہ، مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کرنا، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں کم سے کم اجرت بیس یا اکیس ہزار مقرر کرنا، خیبر پختون خوا کے بعد پورے پنجاب میں صحت انشورنس، پنجاب میں کُل ترقیاتی بجٹ کا 35فیصد جنوبی پنجاب کے لیے مختص کرنا، پنجاب میں کسان کارڈ کا اجرا، نوجوانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی، پانچ لاکھ تک بغیر کسی سود کے قرضوں کی فراہمی جیسے امور پیش پیش ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام آدمی کی اس بجٹ میں کہیں نہ کہیں جھلک موجود ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ بجٹ میں دکھایا یا پیش کیا گیا ہے کیا یہ واقعی عام آدمی کی حقیقی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی پیدا کرسکے گا؟ یہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔ بجٹ میں وسائل رکھنا، اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ایک بات ہے، جبکہ ان پر عمل درآمد کا مجموعی نظام دوسری بات ہوتی ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر بجٹ میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے عملی طور پر اس کے مثبت نتائج کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کیونکہ ایک روایت یہ بن گئی ہے کہ بجٹ میں جو وسائل دکھائے جاتے ہیں، آگے جاکر اُن میں کٹوتی ہوجاتی ہے یا حکومتی ترجیحات تبدیل ہوجاتی ہیں۔سب سے اہم اوربڑا مسئلہ سماجی شعبے کو نظرانداز کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میںکسی بڑی تبدیلی کا عمل محض ایک سیاسی خواہش بن کر رہ جاتا ہے۔

عام آدمی کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ریاست سے جڑے بنیادی حقوق کی فراہمی کے تناظر میں نج کاری کا ہے۔ یعنی ہم زیادہ سے زیادہ ان سماجی شعبو ں کی نج کاری کرکے عام آدمی کی زندگی کومزید مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ تعلیم اورصحت کی بڑھتی ہوئی نج کاری اور تمام معاملات کی ہر سطح پر نجی شعبوں تک منتقلی ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ اس سے ایک بڑا خطرہ یہ جنم لیتا ہے کہ عام اور کمزور آدمی کی ان بنیادی حقوق تک رسائی کا معاملہ پیچھے چلاجاتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ حکومت نوجوانوں کو بینکوں سے قرضوں کی فراہمی کے نظام کو لارہی ہے، لیکن ابھی تک حکومت کے ان تمام پروگراموں کا اگر جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ بینکوں سے قرضوں کی فراہمی اور بالخصوص نوجوان طبقے تک اس کی رسائی بہت مشکل ہے، اور بلاوجہ مختلف شرائط کے نام پر قرضوں کی فراہمی کے نظام کو پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔ عام آدمی کااصل مسئلہ ضلعی اور تحصیل سطح پر موجود سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار میں انقلابی اقدامات ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کا جم غفیر ہے، لیکن بنیادی سہولتوں، ادویہ اور مشینری سمیت ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔ ٹیسٹوں کے نام پر نجی سطح پر لوگوں سے رقم بٹورنے کا کھیل بہت کچھ تبدیل کرنے کی دہائی دے رہا ہے۔

اگر وفاقی یا صوبائی حکومتیں واقعی عام آدمی اور بالخصوص نوجوان نسل کو معاشی طور پر خودکفیل کرنا چاہتی ہیں، یا ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ان کی ترجیحات کا حصہ ہے تو اس کے لیے چھوٹی سطح پر انٹرپنیورکے ماڈل کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانا ہوگا۔ اگر حکومت عام آدمی کو براہِ راست نوکریاں نہیں دے سکتی تو کم ازکم ملک میں روزگار یا چھوٹے کاروبار کے لیے ایسا سازگار ماحول اور پالیسیاں دے جو عام آدمی کو خود سے معاشی میدان میں فعال کرسکیں۔ بالخصوص مقامی سطح پر زیادہ سے زیادہ کاروبار کے لیے عام عورتوں کو بلاسودی قرضوں اور معاشی تربیت کی فراہمی کے جامع پروگرام کا اجرا کرنا ہوگا۔اصولی طور پر پاکستان میں مزدور اور کسان سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، ن کو معاشی سطح پر زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا ہوگا۔کیونکہ اس وقت یہ دونوں طبقے سب سے زیادہ حکومتی توجہ کے مستحق ہیں اوران کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینا ہوں گی۔

یہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں واضح کمی کرے۔ بدقسمتی سے ایک طرف ہم معاشی بدحالی اور عام آدمی کی کمزوری کی دہائی دیتے ہیں اور دوسری طرف حکومتی سطح پر شاہانہ اندازِ حکمرانی کا طرزعمل ایک بڑے تضاد کو جنم دیتا ہے۔ عام آدمی کو مستحکم کرنے کے لیے اوپر کے طبقات کے مقابلے میں عام آدمی کو اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کی بنیاد بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بجٹ، وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم میں عام آدمی کا حصہ بڑھایا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو بڑے بڑے ترقیاتی اخراجات رکھے ہیں ان کو اس انداز سے خرچ کیا جائے کہ عام آدمی سے جڑے مسائل اور معاملات کو بھی فوقیت ملے۔ اس لیے اس وقت جو لوگ یاعام آدمی کی سیاست کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، انھیں حکمرانی کے موجودہ نظام کو ہر سطح پر چیلنج کرنا ہوگا۔ ریاست، حکومت اور اداروں سمیت پالیسی سازوں پر دبائو بڑھانا ہوگا کہ وہ عام آدمی کا مقدمہ لڑیں۔ کیونکہ عام آدمی کی طاقت سے ہی ریاست اور حکومت کا شفافیت کا ایجنڈا سامنے آتا ہے اور یہی ریاست سمیت حکومتوں کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔