!ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہوں جسے

263

سید منورحسن ان عظیم الشان انسانوں میں شامل ہیں جنہوں نے اللہ کی مخلوق کو اللہ کے ساتھ جوڑنے کا کام کیا۔ اُن کی زندگی جدوجہد سے بھرپور تھی۔ یہ جدوجہد مال و دولت کے حصول کے لیے نہ تھی بلکہ دین کی سربلندی کے لیے تھی۔ اُن کی تقاریر، اُن کے خطابات، اُن کے بحث مباحثے، اُن کے خطوط اور پاکستان و بیرون پاکستان افراد سے اُن کا تعلق صرف اس لیے تھاکہ وہ بندوںکو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں لانا چاہتے تھے۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تاہم اُن کے راستے پر چلنے والے سینکڑوں، ہزاروں افراد موجود ہیں اوراِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَکی منزل کے حصول کی جدوجہد کررہے ہیں۔آج ان کی رحلت کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا ، ان کی یاد دلوں میں اسی طرح جگمارہی ہے ۔
مجھے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستگی کے نو برسوں کے دوران سید منورحسنؒ کے خطابات سننے کا کئی بار موقع ملا۔ ان کے خطاب میں ایک خاص قسم کی چاشنی ہوتی تھی، الفاظ کاانتخاب اُن پر ختم تھا، لیکن ان کا پیغام یہی ہوتا تھاکہ اپنی زندگی اپنے رب کے حوالے کردیں اور اسی جدوجہد میں شریک ہوکر جنت کے حق دار بن جائیں۔ اُن سے مل کر محسوس ہوتا کہ وہ مختلف قسم کے فرد ہیں، محبت کرنے والے، شفقت کرنے والے، مہربان۔ 1990ء میں مرکز جماعت کے شعبہ اُمور خارجہ میں شمولیت کے بعد جناب سید منور حسن ؒ سے راہنمائی لینے کے متعدد مواقع آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو غضب کی ذہانت عطا کی تھی۔ اُن کے کئی جملے بہت سی کتابوں پر بھاری تھے۔ ایک موقع پر، شاید مسئلہ کشمیر پر مسلم و عرب حکمرانوں کی بے بسی اور لاچاری کا ذکر ہورہا تھا۔ سید صاحب نے برملا کہا ’’خدا کے سوا سب فقیر ہیں‘‘۔ اس حقیقت کو سمجھ جانا اور دوسروں کو سمجھانا ہی سیدمنورحسن کا کمال تھا۔ اسی طرح ایک محفل میں تقویٰ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ تقویٰ کا حقیقی مفہوم بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر نے سمجھا ہے جس کا کہناہے کہ میں نے ساری عمر آئس کریم اس لیے نہیں کھائی کہ اس سے گلا خراب نہ ہوجائے۔
جناب سید منورحسن ؒ انتہائی منظم زندگی گزارنے کے عادی تھے، یہی وجہ ہے کہ قلیل وقت میں زیادہ کام کرلیتے تھے۔ جماعت اسلامی کراچی، بعد ازاں مرکز جماعت میں نائب قیم، قیم جماعت اور بعد ازاں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر بننے کے بعد وہ اوقات کی شدت سے پابندی کرتے تھے۔ وقت ضائع کرنے اور وقت کی پابندی نہ کرنے والوں کو پسند نہ کرتے۔ جامع مسجد منصورہ میں جب نماز جمعہ سے قبل خطاب کے لیے تشریف لاتے تو ٹھیک ایک بجے منبر پر بیٹھ جاتے، چند سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہ ہوتے۔ اسی طرح خطاب کے آخری دس منٹ سیاسی حالات کے تجزیے میں صرف کرتے اور وقتِ مقررہ پر گفتگو ختم کردیتے۔ وقت کے منظم استعمال کی اُن سے بہتر مثال کوئی نہیں ملتی۔ جمعیت کے ایک ساتھی امریکہ سے آئے اور جماعت کی مختلف سرگرمیوں پر شدید تنقید کی اور کتنے ہی حوالوں سے متعدد تجاویز بھی پیش کیں۔ ان سب کا سید صاحب نے صرف یہ جواب دیا کہ ’’ہم ایک منظم جماعت ہیں اور نظم و ضبط کے پابند ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک خطاب کے دوران اُن کا ایک جملہ اُن کی اپنے مقصد سے کمٹمنٹ کا واضح اظہار ہے۔ انہوںنے کہا ’’کرنا چاہیں تو کام بہت ہیں ورنہ اخبار بہت ہیں‘‘۔ اپنی تحریر کو وہ بار بار پڑھتے اور اس کو حتمی شکل دیتے۔ جناب سید منورحسنؒ اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے بے انتہا محبت رکھتے تھے اور اس محبت کے پیچھے صرف اور صرف یہ غرض ہوتی تھی کہ انہیں تحریک کے کام میں مصروف کیا جائے اور ان کی صلاحیتوں کو بھرپور پروان چڑھایا جائے۔ تحفہ دینے میں وہ سب سے آگے تھے اور اس معاملے میں کوئی ان کے ہم پلہ نہ تھا۔ غیر ملکی تحقیقی ادارے، سفارت کار اور اسلامی تحریکات کے نمائندے اُن سے ملاقات کے لیے آتے اور وہ انتہائی شگفتہ لہجے میں گفتگو کرتے۔ انگریزی زبان روانی سے بولتے اور اُنہیں اظہارِ خیال میں کمال حاصل تھا۔ میں نے بار ہا دیکھا کہ مدلل گفتگو سے وہ اپنے سامعین اور ملاقاتیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔
کھانا کھانے کے دوران اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے اردگرد بیٹھے لوگ کھانا کھائیں اور دلجمعی سے کھائیں لیکن خود بہت کم کھانا کھاتے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، محترم خرم مرادؒ اور پروفیسر خورشید احمد کا ذکر انتہائی احترام اور محبت کے ساتھ کرتے، جب کبھی موقع ملتا، ان کے حوالے سے دلچسپ واقعات سناتے۔
سید منورحسن ؒ کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔ اُن کے اردگرد سینکڑوں لوگ تھے جنہوں نے زراعت، تجارت، تعلیم، بیرون ملک سفر کے ذریعے بہت شہرت کمائی۔ وہ صرف اُس شخص کے لیے دل کے دروازے کھولتے جس نے اپنے آپ کو تحریک کے لیے وقف کیا ہو اور جس نے دعوت کو پھیلانے کے لیے نئے نئے تجربات کیے ہوں۔ مرکز جماعت کے چھوٹے بڑے کارکنان کا اُن سے براہِ راست رابطہ تھا۔ مرکزی اسٹاف کے چھوٹے بڑے فنکشن میں شرکت کرتے۔ اپنی بیٹی کی شادی کی، اس خوشی میں ہفتہ وار درسِ قرآن میں شیرینی تقسیم کی۔ اسی طرح مرکز کا کوئی بھی کارکن انہیں اپنے گھر بلاتا اور ان کے پاس وقت ہوتا تو ضرور اس کے گھر جاتے۔سید منورحسن ؒنے زندگی گزار کر دکھایا ہے کہ اللہ کی تابعداری والی زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔ دنیا کے اندر رہ کر دنیا سے لاتعلق کیسے رہا جاسکتا ہے اور دنیا کے مال و متاع سے کس طرح بچ کر رہا جاسکتا ہے۔
جان کر من جملہ خاصان خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے