اخلاص ، للہیت اور فنا فی اللہ کی تصویر

373

سید منور حسن ؒ کو جہان فانی سے رخصت ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیالیکن ہمیں اب بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے آس پاس ہی کہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا ہے جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے، اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ 207۔208)
سید منور حسن صاحب اپنی صاحبزادی فاطمہ کا خطبہ نکاح پڑھنے کے لیے منبر پر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ کسی اور حوالے سے میں ولی ہوں یا نہیں لیکن فاطمہ بیٹی نے تو مجھے ولی بنادیا، اور ان کے ولی کی حیثیت سے مجھے حق اور اختیار حاصل ہے کہ ان کا نکاح پڑھائوں۔
اگرچہ دنیا میں کسی کے بارے میں کوئی فیصلہ کن مثبت یا منفی بات کرنا کسی بندے کا کام نہیں ہے، کیونکہ حقیقت کا علم اللہ رب العزت کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے خود یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنے بندوں کے اخلاص، منافقت یا کفر کی خبر غیب کے ذریعے سے نہیں دیتا بلکہ امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کون مخلص مومن ہے، کون نرا کافر ہے اور کون منافق ہے۔
درج بالا قرآنی اصولوں کی روشنی میں ہم محترم سید منور حسنؒ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں وہ اخلاص، للہیت اور فنا فی اللہ کی ایک تصویر دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات اکتوبر 1977ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماعِ ارکان و امیدواران مظفرآباد میں ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹوکے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد ملک میں مارشل لا لگ چکا تھا۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان، پاکستان قومی اتحاد کا حصہ تھی۔ اور جناب سید مرحوم کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے نہ صرف قومی اسمبلی کی نشست جیت لی تھی بلکہ سب سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کرلیے تھے۔1980ء تک اسلامی جمعیت طلبہ کے مختلف پروگرامات میں شرفِ ملاقات حاصل رہا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے پروگراموں میں ملتے رہے، اور محترم قاضی حسین احمدؒ کے دورِ امارت میں سید منور حسن جب قیم جماعت بنے تو قیم صوبہ اور امیر صوبہ کی حیثیت سے ان کا ساتھ رہا۔ 2003ء سے نائب امیر جماعت اور 2009ء سے ایک بار پھر امیرصوبہ کی حیثیت سے میں ان کے ساتھ ان کے قیم جماعت اور امیر جماعت کی حیثیت سے جماعت کے کاموں میں ان کی رفاقت نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہا۔ اس دوران دو باتوں کا میں نے بڑا قریبی مشاہدہ کیا۔ محترم سید منور حسن نماز باجماعت کا بھرپور اہتمام کیاکرتے تھے اور تہجد میں باقاعدگی ان کا وتیرہ تھا۔ ایک بار میں گاڑی چلا رہا تھا اور سید مرحوم برابر والی نشست پر تشریف رکھتے تھے۔ خزانہ شوگر مل کے پاس سے گزر رہے تھے کہ مغرب کی اذان ہوئی۔ تھوڑی دور بخشو پل سے آگے مسجد کے پاس میں نے گاڑی روک دی۔ انہوں نے سختی سے میرا بازو پکڑ کر کہا کہ جہاں اذان ہورہی تھی وہاں کیوں نہیں رکے؟ اب ہم تکبیر تحریمہ سے محروم ہوئے۔ میں نے بڑی مشکل سے یہ کہہ کر ہاتھ چھڑایا کہ وہاں سڑک کے کنارے مسجد نہیں تھی اور جونہی مسجد پہنچے میں نے گاڑی روک دی۔
جناب سید منور حسن پر علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے:
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اس حوالے سے جناب سید صاحب کے ایک انٹرویو اور ایک تقریرسے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
جماعت کی امارت کے دوران سلیم صافی کو دیے گئے انٹرویو کا سوال و جواب۔
سلیم صافی: یہ جو پاکستانی فوجی تحریک طالبان کے ساتھ لڑتے ہوئے مر رہے ہیں ہم ان کو شہید سمجھیں یا نہیں؟ آپ جو بھی جواب دینا چاہیں۔
سید منور حسن: نہیں، دیکھیں ناں یہ تو پرابلم ہے، اور میں ذرا اس سے ایک قدم آگے بڑھ کے بات کرتا ہوںکہ جو اس علاقے میں لڑنے والا امریکی فوجی شہید نہیں ہوتا ہمارے نزدیک، اور اس اعتبار سے جو امریکی فوج کا ساتھ دیتا ہے اور امریکی فوج کے مقاصد پورا کرتا ہے اور امریکا کی ڈکٹیشن اور ڈومور پر عمل کرتا ہے، میرے نزدیک تو سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے کہ امریکی مرے تو وہ ذلت کی موت مرے گا، اس کا ساتھ دینے والا، اس کو سپورٹ کرنے والا، انٹیلی جنس کو سپورٹ کرنے والا، ہر طرح کی ہمنوائی کرنے والا… وہ کیسے شہید ہوسکتا ہے؟ میرے ذہن میں سوال موجود ہے، اگر کوئی مفتی صاحب ملیں اور آج آپ مل گئے ہیں توآپ سے ہی سوال کرلیتا ہوں کہ وہ کیسے شہید ہوگا؟ اگر امریکی شہید نہیں ہے تو اس کا ساتھ دینے والا بھی شہید نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ ایک ہی مقاصد ایک ہی اہداف کے لیے وہ کام کررہے ہیں۔
اس انٹرویو پر ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز پبلک ریلیشنز نے میڈیا کوبیان جاری کردیا کہ ہمارے شہداء کی توہین ہوئی ہے، سید منور حسن صاحب اس پر معافی مانگیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایک مشاورت میں اس پر فیصلہ ہوا اور لیاقت بلوچ صاحب نے میڈیا کو بیان دیا کہ جماعت اسلامی اس پر کوئی معافی نہیں مانگے گی۔ فوج کا کام سیاست نہیں ہے۔ اگرچہ اس کے بعد خاموشی چھا گئی لیکن سید صاحب کے سوالات ہنوز جواب طلب ہیںکہ اس علاقے میں مرنے والے امریکی کیا شہید ہیں؟ امریکا کا ساتھ دینے والے پاکستانی مرکر شہید ہورہے ہیں؟
کہنے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی فوجی امریکا کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ اللہ کی رضا کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ ثبوت طلب ہے۔کیا پاک فوج اسے ثابت کرسکتی ہے؟
فوج کی طرف سے خاموشی کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان بھی اس کے بعد خاموش ہوگئی۔ لیکن سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ البتہ محترم سید منور حسنؒ کی وفات کے بعد ان کو بھی حق گوئی اور جرات کے اعزاز مل رہے ہیں اور ہم بھی اس میں اپنا حصّہ بٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔
نومبر 2014ء میں مینارِ پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس کا فیصلہ سید منور حسن صاحب کی صدارت میں مرکزی مجلس شوریٰ نے کیا تھا۔ انہوں نے اس اجتماع میں جو تقریر کی تھی اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:
’’قتال فی سبیل اللہ کا لفظ متروک ہوتا جارہا ہے، ٹیررازم سے اس کو جوڑ دیا گیا ہے، ایکسٹریم ازم اس کا نام قرار پایا ہے، اور بڑے بڑے لوگ اس کا استعمال کرنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ میں ببانگِ دہل، ڈنکے کی چوٹ پر اور بلاخوفِ تردید یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس معاشرے کے اندر بھی اگر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو عام نہ کیا گیا تومحض انتخابی سیاست اور محض جمہوری سیاست کے ذریعے جو اِس وقت کے حالات ہیں ان پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ جب حالات ٹھیک ہوجائیں، منکر اور معروف کی کشمکش کے اندر معروف کی فتح مندی کا بگل بجادیا جائے تو انتخابی سیاست کارگر ہوسکتی ہے۔‘‘
محترم سید منور حسن کی اس تقریر پر مخالفین بالخصوص میڈیا کی برہمی اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن جماعت اسلامی پاکستان کے اندر بھی اعلیٰ قیادت کی سطح پر اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ دلیل یہ دی جاتی تھی کہ قتال ریاست کا کام ہے اور پرائیویٹ جہاد کے مفاسد ناقابلِ کنٹرول ہوجاتے ہیں۔ یہ دلیل اپنی جگہ بہت وزنی ہے، لیکن جب کفر کے شکنجے میں مظلوم بچے، بوڑھے اور عورتیں چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکار رہے ہوں اور ریاست ٹس سے مس نہ ہورہی ہو، کور کمانڈر کروڑ کمانڈر بلکہ ارب پتی بن کر ائیرکنڈیشن نظام کے مزے لے رہے ہوں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ریاست اور فوج پر ان کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے بھرپور دبائو ڈالیں۔ محترم سید صاحب نے یہی فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ٭٭