سید منور حسن ؒ تحریک آزادی فلسطین کے پشتی بان

183

سابق وزیرا عظم فلسطین

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سچ کہا کہ آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔
پاکستان اور امتِ مسلمہ کی ایک عظیم شخصیت سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسنؒ کی وفات کو ایک سال گزر گیا۔جماعت اسلامی اور پاکستانی قوم کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ میں خصوصاً اپنی طرف سے اور اپنی جماعت حرکۃ حماس کے ارکان کی طرف سے اور عموماً بیت المقدس اور اس کے اطراف میں رہنے والی مجاہد فلسطینی قوم کی طرف سے محترم دوست امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق اور ان کے رفقاء کو، بلکہ پورے پاکستان، ریاست، حکومت، جماعتوں اور قوم کو مرحوم سید منور حسن کی وفات پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، انہیں وسیع جنتوں میں ٹھیرائے اور مرحوم کے اہلِ خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت اور امتِ مسلمہ کو مرحوم کا بہترین نعم البدل ایسے رجال کی شکل میں عطا کرے جو علم و عمل کے مجاہد ہوں، جن کا ایمان راسخ ہو اور وہ اس راہِ حق پر استقامت کے ساتھ چلنے والے ہوں۔
ہم نے امتِ اسلامیہ کی ایک عظیم شخصیت کو الوادع کیا ہے۔ مرحوم نے زندگی کے تین شعبوں میں اپنی اعلیٰ خدمات سرانجام دیں۔ ان کی خدمات کا پہلا شعبہ اسلام ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جان اسلام کی خدمت کے لیے وقف کی تھی، یہ وہ دینِ عظیم ہے جس کے لیے زمین و آسمان کی تخلیق کی گئی۔ سید منور حسن رحمہ اللہ کی شخصیت پاکستان اور امتِ مسلمہ کے لیے ایک عالم و مربی اور دینِ اسلام اور آسمانی شریعت کے فقیہ کی سی تھی۔ مرحوم نے اپنی خدمات کی شکل میں بہت سی نشانیاں اور بہت سی یادیں چھوڑی ہیں جن کو نہ صرف جماعت اسلامی اور پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کی خدمات کو پوری امتِ اسلامیہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
ان کی خدمات کا دوسرا شعبہ پاکستان ہے۔ ہمارے لیے سگے بھائیوں جیسی مسلم قوم اور پاکستان میں جماعت کی حیثیت ایک اہم سیاسی، علمی، فکری اور سماجی جماعت کی ہے۔ مرحوم خاص طور پر وطن پرست تھے اور اپنے وطن اور سرزمینِ پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ دیگر سیاسی و دینی جماعتوں اور مختلف طبقات کے لیے کشادہ اورفراخ دل رکھتے تھے۔ انہوں نے جماعتی زندگی کی محدودیت سے باہر نکل کر اپنے آپ کو ایک عوامی قائد کے طور پر پیش کیا۔ اس لیے وہ سب کے قریب ہوگئے اور سب ان کے قریب ہوگئے۔
ان کی زندگی کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی جماعت اور اپنے وطن پاکستان کے ساتھ القدس کی سالمیت کے لیے ڈٹے رہے۔ وہ تاریخ کے مسلمہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین، القدس اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کی حمایت کرتے رہے۔ فلسطینی قوم کی واپسی کے حق کے لیے آواز بلند کرتے رہے جن کو 1984ء میں اپنے وطن اور اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ ہمارے بھائیوں کی صہیونی جیلوں سے آزادی کے حق میں بھی وہ آواز بلند کرتے رہے۔ وہ اہلِ فلسطین اور ان کی تحریکِ مزاحمت کی حمایت میں ہمیشہ علَم بلند کرتے رہے۔ ان کا فلسطینیوں کی حمایت کرنا ایک مبارک اقدام ہے۔ وہ قدس اور اس کے دفاع کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ وہ اسرائیل کے فلسطین پر ناحق قبضے کو ہمیشہ مسترد کرتے تھے اور مبارک ارضِ فلسطین پر اسرائیل کے بالشت بھر قبضے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔
سید منور حسن رحمہ اللہ کی زندگی کے یہ تین پہلو ہیں جو بہت نمایاں رہے یعنی اسلام، پاکستان اور امتِ مسلمہ کا مرکزی مسئلہ (مسئلہ فلسطین)۔ سید منور حسن رحمہ اللہ کی رحلت صرف پاکستان کا ہی صدمہ نہیں بلکہ امتِ اسلامیہ اور بالخصوص فلسطینی قوم کے لیے بھی ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ جماعت اسلامی جس راہِ حق پر گامزن ہے، اس مشن کو جاری و ساری رکھے گی۔ پاکستانی قوم اور جماعت اسلامی مسئلہ فلسطین کی حمایت کا علَم بلند رکھے گی۔ ہمارے نزدیک پاکستان، امتِ مسلمہ میں بہت اہم مقام رکھتا ہے اور القدس و مسجد اقصیٰ کے لیے اس کا کردار نہایت اہم ہے۔
اس وقت ہمیں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے، یہ چیلنج بیت المقدس اور فلسطین کو اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر مکمل قبضہ کرنے کے حوالے سے درپیش ہے۔ ان کا منصوبہ ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کریں، وہ مغربی کنارے کے تیس فیصد سے زائد علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ وہ غزہ کی پٹی کا گھیرائو کرنے کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں اور فلسطینی قوم کے ہزاروں بیٹوں کو بھی جیلوں میں قید رکھنا چاہتے ہیں۔
میں آخر میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ بیت المقدس اور فلسطین کو جن حقیقی چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے آپ اس کے لیے اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں، اس پورے خطے میں امن و امان کو جو خطرات درپیش ہیں آپ ان سے نمٹنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ فلسطینی قوم اپنے حقِ آزادی اور خودمختاری کی خاطر اپنی بندوق لے کر ڈٹی رہے گی۔ اس کی مثال ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی مانند ہے۔ ہم قدس کے لیے لڑتے رہیں گے، خواہ ہمیں اس کے لیے کتنی ہی جانوں کا نذرانہ کیوں نہ پیش کرنا پڑے، یہاں تک کہ ہم اپنی سرزمین آزاد کرالیں اور القدس واپس لے لیں، اور اپنی مسجد اقصیٰ کی محرابوں میں نمازیں ادا کریں۔
باذن اللہ تعالیٰ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ ان شاء اللہ