سید منور حسنؒ

315

چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت

اقبال کی عظیم الشان نظم ’مسجد ِقرطبہ‘ اس طرح شروع ہوتی ہے:۔
سلسلہ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
سلسلہ روز و شب، تارِ حریر و دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دِکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب، صیرفیِ کائنات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی وفات کو ایک سال گزر گیا ، سید منور حسن کے انتقال کی خبر سن کر ہمیں مسجد قرطبہ کے یہ اشعار خود بخود یاد آگئے تھے، بالخصوص ان شعروں میں موجود آخری شعر
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
اس شعر کا یاد آنا بلاسبب نہیں تھا۔ سید منور حسن کی زندگی اگر صرف ایک لفظ سے Define ہوتی ہے تو وہ صرف عشق ہے۔ انہیں اپنے خالق و مالک سے عشق تھا۔ انہیں رسول اکرمؐ سے عشق تھا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دین سے عشق تھا۔ ان کے لیے سیاست پیشہ نہیں تھی، عشق تھی۔ ان کے لیے ان کا نظریہ، نظریہ نہیں تھا عشق تھا۔ یہ باتیں ان کی زندگی ہی سے نہیں ان کے چہرے تک سے ظاہر تھیں۔ سید مودودیؒ کا چہرہ ایسا تھا جسے دیکھ کر خدا یاد آجاتا تھا۔ یہ بات مولانا کی تصویروں تک میں موجود ہے۔ سید منور حسن کے چہرے پر بھی ایک دو رنگ ایسے تھے کہ انہیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا تھا۔ انہیں دیکھ کر اکثر غالب کا یہ شعر بھی یاد آجاتا تھا:۔
کیا پوچھو ہو وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
سید منور حسن کی شخصیت کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ پہلے دن سے ’’شعوری مسلمان‘‘ تھے، ’’پیدائشی مسلمان‘‘ نہیں۔ وہ این ایس ایف سے جمعیت میں آئے تھے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ این ایس ایف اْس وقت کی بڑی تنظیم تھی اور طلبہ سیاست میں ہر طرف اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ منور صاحب کو عہدہ و منصب عزیز ہوتا اور انہیں شہرت کا طواف پسند ہوتا تو وہ کبھی بھی این ایس ایف سے جمعیت میں نہیں آسکتے تھے۔ مگر ان کی نظر جمعیت کے نظریے پر پڑ گئی اور وہ نظریے سے پہلی نظر کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ شعوری مسلمان کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ داخلی طور پر ارتقا پذیر ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یعنی وہ خارج کے دبائو سے نمو پذیر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے باطن کی آواز اسے داخلی ارتقا سے ہم کنار کرتی ہے۔ داخلی طور پر ارتقا پذیر شخصیت کبھی ’’عقل پرست‘‘ نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ عشق میں مبتلا ہوتی ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کی عنایتِ خاص کا پہلو سب سے اہم ہے۔ ہماری بڑی بیٹی کو جب یہ معلوم ہوا کہ سید منور حسن کبھی این ایس ایف میں تھے تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو پتا ہے کیا ہوا ہوگا؟ ہوا یہ ہوگا کہ خدا نے سید منور حسن کو دیکھ کر کہا ہوگا کہ اتنا اچھا انسان بہرحال این ایس ایف میں نہیں رہ سکتا۔ باقی تاریخ ہے۔ ہم نے اپنی بیٹی سے کہاکہ تم نے کتنی اچھی بات کہی۔ واقعتاً ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سید منور حسن کی زندگی میں فکری اور نظریاتی مرکز کی تبدیلی پر واقعتاً خدا کی عنایتِ خاص کا سایہ تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ بائیں بازو کی سیاست انہیں ملک کا وزیراعظم تک بنا سکتی تھی، مگر پھر وہ سید منور حسن بہرحال نہیں ہوسکتے تھے۔
نظریاتی شخصیت ہونا بڑی اہم بات ہوتی ہے، مگر نظریے کے ساتھ انسان کا تعلق اتنا سادہ نہیں ہوتا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اکثر لوگ نظریے کو ٹوپی کی طرح اوڑھ لیتے ہیں یا لباس کی طرح پہن لیتے ہیں۔ اس طرح نظریہ کبھی بھی ان کے بطونِ ذات کا حصہ نہیں بن پاتا۔ وہ کبھی بھی ان کی کھال اور ان کا گوشت نہیں بن پاتا۔ سید منور حسن کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جس میں وہ اپنے نظریے کو اوڑھے ہوئے یا پہنے ہوئے نظر آئے ہوں۔ ان کا نظریہ ان کا باطن تھا اور ان کا باطن ان کا نظریہ تھا۔ نظریے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بعض لوگوں کے لیے حقائق کا پردہ بن جاتا ہے اور بعض کے لیے ایک بصیرت، ایک Vision میں ڈھل جاتا ہے۔ نظریہ کسی کے لیے کیا بنے گا اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انسان کے مقاصدِ حیات کیا ہیں؟ مقاصدِ حیات پست ہوں تو نظریہ انسان کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ بن جاتا ہے۔ مقاصد بلند ہوں تو نظریہ بصیرت بن جاتا ہے۔ بلاشبہ سید منور حسن کا نظریہ ان کی بصیرت تھا۔

اسلامی فکر میں دنیا کی ایسی مذمت ہے کہ آدمی اس مذمت اور پوری امتِ مسلمہ کی روشِ عام کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’دنیا کی زندگی دھوکے کی ٹٹی یا Smoke Screen کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں کو اس سے کوئی حصہ نہ ملتا‘‘۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے صحابہ ؓکے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ آپ ؐ اسے دیکھ کر ٹھہر گئے۔ صحابہؓ بھی کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا: تم میں سے کوئی بکری کے اس بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہؓ نے کہا: ایک تو یہ بچہ ہے اور اس پر مرا ہوا بھی ہے۔ ہم اسے مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ آپؒؐنے فرمایا: ہر امت کا ایک فتنہ ہے، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ دنیا دھوکے کی ٹٹی ہے مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس دھوکے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔دنیا مچھر کے پَر سے زیادہ حقیر ہے اور پوری امت اس کے عشق میں مبتلا ہے اور کافروں کو مال و متاع کے دائرے میں عیش کرتے ہوئے دیکھ کر کافروں کے سے عیش و عشرت کی حسرت میں مبتلا ہے۔ دنیا بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے، مگر بڑے بڑے مسلمان دنیا کی محبت میں مبتلا ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق امتِ مسلمہ کا فتنہ مال ہے، اور مسلمانوں کی عظیم اکثریت مال کے فتنے میں مبتلا ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ سید منور حسن کا قصہ یہ تھا کہ وہ دنیا سے ایسے بے نیاز تھے کہ ان کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ کے مسلمان یاد آجاتے تھے۔ دنیا کی محبت سے بے نیاز ہونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت ہی بڑی سنت کو اختیار کرنا ہے… قولاً نہیں، عملاً۔ بلاشبہ سید منور حسن عملاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان سنت سے وابستہ تھے۔ وہ قومی سیاست کے ایک اہم رہنما تھے اور ان کے پاس رہنے کے لیے ایک مکان تک نہ تھا۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ کرائے کے مکانوں میں گزرا۔ بالآخر گھر میسر بھی آیا تو 120 گز کا۔ سید منور حسن کی دخترِ نیک اختر کی شادی ہوئی تو اسے 70 لاکھ سے زیادہ کے زیورات تحفے میں ملے۔ سید صاحب نے سارے زیورات جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرادیے۔
بتانے والے نے بتایا کہ سید منور حسن کا جوتا اتنی خستہ حالت میں تھا کہ کوئی اسے پہن نہیں سکتا تھا، مگر سید صاحب نے جوتا بدلنے کے بجائے جوتے کا Sole بدلوا لیا۔ کچھ عرصے بعد وہ Sole بھی گھس گیا تو جوتے کا Sole دوبارہ بدلوایا گیا۔ یہ سن کر ایک محبت کرنے والے بہت مہنگا جوتا سید صاحب کے لیے لے آئے۔ سید صاحب نے جوتا لے کر اپنے ڈرائیور کو دے دیا۔ اللہ اکبر۔ ایک امیر کبیر شخص نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سید صاحب سفر بہت کرتے ہیں ایک آرام دہ گاڑی سید صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ سید صاحب نے کہا کہ اگر آپ یہ گاڑی جماعت اسلامی کو دے رہے ہیں تو قابلِ قبول ہے ورنہ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ نہیں، یہ گاڑی تو صرف آپ کے لیے ہے۔ سید صاحب نے گاڑی لینے سے انکار کردیا۔ ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔
مولانا مودودیؒ کی تجدیدی فکر کے دو بنیادی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ حق اپنے اجمال اور اپنی تفصیل میں کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ عہدِ حاضر کا باطل کون ہے اور اس کی مزاحمت کیسے کرنی ہے۔ سید منور حسن نے مولانا کی تجدیدی فکر سے یہ دونوں باتیں جس طرح سیکھیں جماعت اسلامی پاکستان میں شاید ہی کسی نے سیکھی ہوں۔ بے شک سید منور حسن نے اس کو قلم اور قرطاس کے ذریعے بیان نہیں کیا، مگر انہوں نے حق کو جس طرح عمل میں ڈھالا اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن سید صاحب کا اس سے بھی بڑا کارنامہ باطل قوتوں کی مزاحمت ہے۔ باطل مقامی ہو یا غیر مقامی، سید صاحب اس کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے تھے۔ مولانا نے اپنی تحریروں میں بتایا ہے کہ عہدِ حاضر کا ایک باطل سوشلزم ہے اور دوسرا باطل مغربی تہذیب ہے۔ سوشلزم جب تک نظام کی حیثیت سے باقی رہا سید صاحب اس کے خلاف صف آرا رہے۔ جدید مغربی تہذیب بالخصوص اس کے سب سے بڑے علَم بردار امریکہ کے خلاف منور صاحب نے جتنی گفتگوئیں کیں، جماعت کے کسی اور رہنما نے نہیں کیں۔ یہ منور صاحب ہی تھے جنہوں نے ’’گو امریکہ گو‘‘ کی تحریک چلائی۔ یہ اور بات کہ گو امریکہ گو کی تحریک انہی کی ذات تک محدود رہی اور جماعت نے بحیثیت جماعت اس میں کوئی حصہ نہ لیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہمیشہ موجود رہے گی کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کو جس طرح منور صاحب نے چیلنج کیا کوئی اور سیاسی رہنما کیا، جرنیل بھی ویسا نہ کرسکے۔ ایک وقت آیا کہ ایم کیو ایم نے منور صاحب پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا۔ منور صاحب کو ریاستی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں اطلاع دی گئی، یہاں تک کہ حملہ کرنے والے گروہ کے سرغنہ نے منور صاحب کے ڈرائیور کو بتادیا کہ آج حملہ ہوکر رہے گا۔ ڈرائیور نے منور صاحب کو گھر سے نہ نکلنے کا مشورہ دیا، مگر منور صاحب اللہ کے سہارے گھر سے نکلے۔منور صاحب کی مزاحمت کی ایک بہت ہی بڑی مثال یہ ہے کہ منور صاحب کے اصولی بیان پر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل سخت برہم ہوئے اور انہوں نے سید منور حسن سے معافی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی سے بھی کہا کہ وہ اپنے امیر کے بیان کا نوٹس لے، لیکن منور صاحب بے پناہ پراپیگنڈے اور دبائوکے باوجود اپنے موقف پر کھڑے رہے۔ البتہ منو ر صاحب دوسری ٹرم کے لیے امیر منتخب نہ ہو سکے۔
منور صاحب کی مزاحمت کی ایک بہت ہی بڑی مثال یہ ہے کہ منور صاحب کے اصولی بیان پر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل سخت برہم ہوئے اور انہوں نے سید منور حسن سے معافی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی سے بھی کہاکہ وہ اپنے امیر کے بیان کا نوٹس لے، لیکن منور صاحب بے پناہ پراپیگنڈے اور دبائو کے باوجود اپنے موقف پر کھڑے رہے۔ البتہ منور صاحب دوسری ٹرم کے لیے امیر منتخب نہ ہوسکے۔
رہنمائوں کی تین بڑی اقسام ہوتی ہیں۔ رہنمائوں کی ایک قسم وہ ہے جو صرف ’’مشہور‘‘ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے اکثر رہنما اس دائرے میں آتے ہیں۔ دوسری قسم کے رہنما وہ ہوتے ہیں جو ’’مقبول‘‘ ہوتے ہیں۔ کم رہنما مقبول ہو پاتے ہیں۔ سب سے اہم رہنما وہ ہوتے ہیں جو عوام کے ’’محبوب‘‘ ہوجاتے ہیں۔ جماعت کے دائرے میں منور صاحب ہمیشہ محبوب رہنما کے طور پر موجود رہے۔ محبوب رہنما‘‘Inspiring’’ہوتا ہے، لوگ اس جیسا بننے کی تمنا کرتے ہیں۔ ہم جماعت اسلامی کے ایسے کئی اہم رہنمائوں کو جانتے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں منور صاحب جیسا بننے کی تمنا کی۔ محبوبیت کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ’’اوصاف‘‘ سے پیدا ہوتی ہے۔
منور صاحب کا ایک وصف ان کا نظریاتی تشخص تھا، منور صاحب کا دوسرا وصف ان کا کردار تھا، منور صاحب کا تیسرا وصف ان کی ذہانت تھی، منور صاحب کا چوتھا وصف ان کی توانائی تھی، منور صاحب کا پانچواں وصف ان کی حاضر جوابی تھی۔ یہ تمام اوصاف ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو آدمی متاثر کن شخصیت ہے۔٭